اعتبار،الحاد اور سائینس

حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تقریبا ساری زندگی اعتبار کی بنیاد پر قائم ہے، یہ سمجھنا کہ جدید انسان تو اپنی زندگی کا ہر فیصلہ سائنسی شواھد کی بنیاد پر کرتا ہے، محض ایک افسانہ ہے۔

– ایک میڈیکل سٹور سے دوا خرید کر اس پر ایکسپائری ڈیٹ دیکھی اور بغیر میڈیکل ٹیسٹ کئے کھا لی، کیوں؟ دوا بنانے والی کمپنی اور بیچنے والے دکاندار پر "اعتبار”؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایکسپائری ڈیٹ غلط لکھی ہو؟

– ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانے کا آرڈر کیا اور سرو ہونے پر کھانے کی سائنسی رپورٹ کے بغیر فورا اندر انڈیل لیا، کیوں؟ ریسٹورنٹ والوں پر "اعتبار”، کیا یہ ممکن نہیں کہ کھانے میں غیر صحت بخش اجزاء شامل ہوں؟

– سپر سٹور سے کھانے کی چیز کا ڈبہ خریدا، اس پر اجزاء پڑھے اور بغیر لیبارٹری ٹیسٹ استعمال کرلیا، کیوں؟ کمپنی پر "اعتبار”، کیا یہ ممکن نہیں کہ ڈبے پر اجزاء غلط لکھے ہوں؟

– ڈرائیور کا لائسنس چیک کئے نیز اس لائسنس کے درست ہونے کی تصدیق کئے نیز تصدیق کرنے والے ادارے کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کئے بغیر بس پر سوار ہوجاتے ہیں، کیوں؟ بس کمپنی پر "اعتبار”

– درج بالا سب پر اعتبار کیونکہ یہ "اعتبار” ہے کہ ریاست سب پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ گویا ایک "اعتبار” کے پیچھے دوسرا "اعتبار”

الغرض صبح سے لے کر شام تک اپنے روز مرہ کے فیصلوں کے بارے میں سوچتے جائیں، ان میں 95 فیصد سے زائد کام ایسے ہونگے جہاں 99 فیصد سے زیادہ انسان کسی نہ کسی پر اعتبار ہی کررہے ہوتے ہیں، وہ بھی ایسے افراد اور اداروں پر جن کے بارے میں انہیں آئے روز جھوٹ و فراڈ میں ملوث ہونے کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ تو اگر ایک سچے شخص (نبی) پر اعتبار کر کے کچھ مزید حقائق کا اعتراف کرلیا جائے تو اس "اعتبار” میں فی نفسہ اعتبار ہونے کے لحاظ سے عقلا کیا مسئلہ ہے؟

[pullquote]بغیر اعتبار کئے ملحد اپنی "نسلی حلت” کو بھی ثابت نہیں کرسکتے
[/pullquote]

ملاحدہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تم اہل مذہب نبی کے سچا ہونے کی بنا پر اس پر اعتماد کرکے جو سب کچھ مانتے ہو تو یہ غیر عقلی رویہ ہے۔ اس کے جواب میں اگر انہیں کہا جائے کہ یہ جسے آپ لوگ اپنا والد کہتے پھرتے ہیں (اور اس بنا پر اپنے ناموں کے ساتھ پٹھان، پنجابی، جٹ، آرائیں وغیرہم لگائے پھرتے ہیں) یہ بھی تو صرف ایک عورت ہی کی گواہی کی بنا پر ہے کہ "فلاں تمھارا باپ ہے”، وہ بھی ایسی عورت جسے کئی معاملات میں ہم خود جھوٹ بولتا دیکھتے ہیں، تو اسکے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس مسئلے کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ثابت کرسکتے ہیں۔ مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں اور نہ ھی اس سے ان ملاحدہ کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے کیونکہ اس معاملے میں بھی انہیں بے شمار مفاد پرست اور بسا اوقات جھوٹے و بدکردار ڈاکٹروں و نرسوں پر بھروسا کرنا ہوگا۔

مثلا:

خون کا سمپل جس سرنج کے ذریعے لیا جارھا ہے نیز جس بوتل میں اسے محفوظ کیا جارھا ہے وہ میڈیکلی درست حالت میں ھیں (تاکہ خون کے خلیوں کے اثرات ضائع نہ ھوں)۔ جن مشینوں کے ذریعے رپورٹ لی جارھی ھے وہ بھی بھترین، عمدہ و اپ ڈیٹڈ ھیں۔ اب کونسے میڈیکل انسٹرومنٹس و مشینیں وغیرہ واقعی درست و اپ ڈیٹڈ ھیں اسکا فیصلہ کرنے کے لئے ان مشینوں سے متعلق وسیع میڈیکل علم کی ضرورت ھے

– کسے معلوم کہ خون کے سمپل پر واقعی ٹیسٹ اپلائی کیا گیا؛ یہ بھی تو ممکن ھے کہ یونہی رپورٹ بنا کر ان کے ھاتھ میں تھما دی گئی ہو، کونسا انکے سامنے ٹیسٹ ھوتا ھے، یہ تو سمپل دے کر گھر آجاتے ہیں۔ پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ انہی کی رپورٹ ان کو دی گئی؛ یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی اور کے ٹیسٹ کی رپورٹ پر انکا نام لکھ کر انہیں تھما دی گئی ہو وغیرھم۔

– پھر میڈیکل سائنس و جینیٹکس کا سارا علم بھی تو ظنی ہے، اس میں کئی نظریات بیک وقت موجود ھوتے ھیں۔ اب کونسا نظریہ درست ھے اسکا فیصلہ کرنے کے لئے بھی وسیع علم کی ضرورت ھے۔

– اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ڈی این اے رپورٹ واقعی آپ کی ہوئی تو اپنے مرے ہوئے دادا نانا کی نسبت کا کیا کریں گے؟

الغرض ان ملاحدہ کے پاس اپنی حلت نسلی کو ثابت کرنے کا "سوائے اعتبار کرنے” کے کوئی چارہ نہیں۔ دوسرا راستہ یہ ھے کہ سب ملحدین بذات خود یہ تمام متعلقہ علم سیکھ کر، تمام انسٹرومنٹس خود ایجاد کرکے اور اپنی ھی زیر نگرانی یہ ٹیسٹ کروا کر اپنی اپنی رپورٹس پیش کریں۔

[pullquote]سائنسی علم پر "اعتبار”
[/pullquote]

بعض لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ روز مرہ زندگی کے جن امور پر ہم اعتبار کررہے ہیں انہیں اصولا ہر شخص سائنسی علوم کے پیمانے پر جانچ کر سمجھ سکتا ہے۔ یہ دعوی بھی محض ایک "اعتبار” ہی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی علوم میں کسی نظرئیے و دعوے کا اثبات جن علمی ظروف (مثلا میتھمیٹکس وغیرہ) کے ذریعے اور جس اعلی علمی سطح پر کیا جاتا ہے انہیں سمجھنا عام آدمی تو درکنار متعلقہ مضمون کے اچھے خاصے ماہر و استاد کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر سائنسی مضمون کے اعلی سطح کے ماہرین آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی تبادلہ خیال (communicate) کررہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ باتیں صرف وہی محدود سے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ پھر بعد میں اس مضمون کا کوئی ماہر ان تمام مباحث کو کم تر درجے والے ماہرین کے تعارف کے لئے سادہ سی زبان میں لکھ دیتا ہے کہ ماہرین کے درمیان اب یہ بحث چل رہی ہے۔

پھر یہ کم تر درجے والے اساتذہ ان تعارفی مقالوں کے ذریعے انہیں اپنے طلباء کو سکھا دیتے ہیں اور کچھ لوگ انہیں دلچسپ جان کر اخباری کالمز یا ٹی وی پروگرامز کی زینت بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے لگتے ہیں کہ "سائنس دانوں یا سائنس کے مطابق فلاں فلاں ۔۔۔۔۔” جبکہ یہ دعوے کرنے والوں کی 99.99 فیصد اکثریت میں یہ علمی لیاقت ہی نہیں ہوتی کہ وہ متعلقہ ماہرین کے اصل ماخذات (پیپرز یا مقالہ جات) کو سمجھ بھی سکیں۔ بس سب کچھ اعتبار پر چل رہا ہوتا ہے کہ "اتنا بڑا ماہر علم ہے، پوری زندگی لگا دی اس نے، تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہوگا”۔ یہ حال تقریبا ہر پختہ سائنسی علم کا ہے، تو اب جن لوگوں کو اعتبار کے اصول پر اعتراض ہے انہیں چاھئے کہ پہلے تمام سائنسی علوم کے ماھر بنیں اور پھر زندگی کے فیصلے کرنا شروع کریں۔ پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس "سنہرے اصول” کے سہارے ایک بھی فیصلہ نہ کرپائیں گے کیونکہ ان علوم میں مہارت سے قبل ہی موت واقع ہوجائے گی۔ الغرض خود تو ساری زندگی اعتبار کے سہارے گزارتے ہیں اور اھل مذھب کو طعنہ دیتے ہیں کہ "تم نبی پر اعتبار کرتے ہو”۔ تو بھائی تم اس کے سواء کیا کررہے ہو؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے