عدلِ ہجوم

عدلِ ہجوم The Mob Justice
اک رسم سی ہی بن گئی ہے ہمارے ملک میں کہ جب بھی عوام پہ کوئی عذاب اترے گا ہماری عزت ماب اشرافیہ اسے اپنے سیاسی مفاد کے لئے ہی استعمال کرے گی۔ کراچی میں "ہیٹ ویو” کا آنا زلزلے یا سیلاب کی طرح ایک قدرتی آفت تھی اس کیلئے کسی ایک ادارے یا سیاسی دھڑے کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا تھا۔ لیکن تب بھی دوسرے صوبوں کے سیاسی راہنماؤں نے سندھ حکومت پہ طعنہ زنی کی۔ ایک ہی ہفتے میں ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی تو بجائے اس کے کہ سندھ حکومت کوئی حفاظتی اقدامات کرتی اس نے مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے لفظوں کی جنگ پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔

جب لاہور ڈینگی سے نبردآزما تھا تو کے پی کے سیاستدان پنجاب پہ پھبتی کستے تھے کہ مچھر تو مار نہیں سکتے، اسی طرح جب پشاور میں جنگلی چوہے نومولود بچوں کو کاٹ کھا رہے تھے اور حکومت بےبس تھی تو پنجاب اور دیگر سیاست دان جگتیں لگاتے کہ کے پی کے حکومت پہلے اپنے چوہوں پہ تو قابو پائے۔
یہی رواج حالیہ اغوا وارداتوں کے وقت بھی نظر آیا۔ایک ہفتے کے دوران صرف لاہور (جو صوبائی دارالحکومت ہے جسے گڈ گورنس کی مثال سمجھا جاتا ہے) سے 300 سے زائد بچے اغوا کر لئےگئے۔ کچھ خوش قسمت یا بدقسمت (ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائی ان کی قسمت کا ) والدین کو اپنے ننھے فرشتے باقیات کی صورت ملے جو کارآمد اعضاء حاصل کر لینے کے بعد پھینک دئے گئے تھے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ایسے حالات میں عوام ریاست کی طرف دیکھتی جو پہلے ہی اپنی تمام تر قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت حرکت میں آچکی ہوتی اور ذمہ داران کو کیفر کردار پہچانے کے لئے عملی اقدامات کر رہی ہوتی۔ لیکن ہمارے پیارے پاکستان میں پہلے تو گمشدہ بچوں کی FIR ہی نہیں کاٹی جاتی ، نہ صرف یہ کہ والدین کے ساتھ تعاون نہیں کیا جارہا بلکہ یہ بیان پولیس کے اعلی افسر نے یہ بیان جاری کر دیا کہ گمشدہ بچے تو گھر سے بھاگے ہوئے ہیں اغوا نہیں ہوئے۔ صرف پولیس ہی نہیں قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب کا قول زریں بھی تاریخ کا حصہ بن گیا کہ” بچے تو اغوا ہوتے رہتے ہیں” اور یہ بیان بھی صرف مخالفین کی زبان بندی کے لئے تھا۔

اغوا کی وارداتیں وبا کی طرح دوسرے شہروں تک پھیل گئیں بلکہ دیگر صوبوں کو بھی لپیٹ میں لیا۔ کچھ بچوں کو تو والدین کے ہاتھوں سے چھین کر اغوا کر لیا گیا، کچھ کو گن پوائنٹ سے ہتھیا لیا اور کچھ نومولود بچوں کو ہسپتالوں سے ہی اٹھا لیا گیا۔ ایسے ماحول میں جب خوف کی لہر عوام کی ریڑھ کی ہڈھی میں سرایت کر جائے، تو لاقانونیت اور ایسے غیر سنجیدہ اور لاپرواہ بیانات بےچینی، لاچاری اور عدم تحفظ کے احساسات کو جنم دیتے ہیں، انسان اپنی بقا کے لئے اپنی مدد آپ کے رجحان کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ یہی رجحان اسے انصافِ ہجوم کی طرف لے جا رہا ہے۔

آج کل عام شہری جب میڈیا پہ دیکھتا ہے کہ ایک مبینہ اغواکار عوام کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے پولیس کی موجودگی میں لہولہان کر دیا تو یہ فوٹیج اس کے اعصاب کو پرسکون کررہی ہے شاید ابھی اس رجحان کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا ۔حالانکہ ماضی میں ہم ایسے ہی کچھ "عدل ہجوم” کے واقعات کے گواہ ہیں جیسے سیالکوٹ کے دو بھائی جن پہ ڈکیتی کا شک تھا، مسیحی جوڑا جن پہ گستاخی کا شک تھا، دو باریش اصحاب جن پہ چرچ حملہ کا شک تھا۔ جو بعد از "عدل” بےقصور ٹھہرائے گئے۔

ریاست کو چاہیے کہ لفظی جنگ ترک کرکے عملی اقدامات کرے اس اغوا مافیا کو پکڑنے کیلئے اپنے تمام وسائل کو بروئےکار لائے، خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ان اغوا کاروں اور اعضاء کا کاروبار کرنے والے مافیا کا سراغ لگایا جائے، قانون سازی کی جائے تاکہ ان کو سرے عام سزائے موت دی جا سکے۔ عوام کا احساس تحفظ اور ریاست پہ اعتماد بحال کیا جائے

یہ ریاست کی ہی ذمہ داری ہے کہ مسائل کو فوری طور پر ان کی حساسیت کے مطابق حل کرے ناکہ اگلے الیکشن کی تیاری کے لئے، ورنہ جب عوام اپنا راستہ خود بنانے کا سوچ لیتی ہے تو بپھرے ہوئے ہجوم کو کوئی روک نہیں سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے