کشمیر جل رہا ہے

ریاست جموں وکشمیر ان500نوابی ریاستوں میں شامل تھی جن کو انگریزوں نے مختلف معاہدات کی روشنی میں اندرونی خودمختاری دے رکھی تھی برصغیرکی آزادی کے بعد بڑی ریاستوں نے ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کی بجائے آزاد رہنے کی کوشش کی مگر انہیں سیاسی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔حیدرآباد،جموں وکشمیر اور جوناگڑھ کے علاوہ تمام نوابی ریاستیں آزادی کے فارمولے کے مطابق بھارت یا پاکستان میں شامل ہوگئیں نظام آف حیدرآباد نے آزادی کیلئے کوشش کی توہندوستان نے اس پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا جب ہندو اکثریتی ریاست کے مسلمان حکمران نے 15اگست1947 ء کو پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو ہندوستان کی حکومت نے سخت احتجاج کرتے ہوئے اس فیصلے کو تقسیم ہند کے حصول کے منافی قرار دیا ۔چند ماہ بعد ہندوستان تقسیم ہند کے تمام اصولوں کو بھول گیا اور اس نے جموں وکشمیر کے ہندو مہاراجہ کی جانب سے الحاق کی پیشکش قبول کرلی حالانکہ جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔

مہاراجہ کی فوج نے دو لاکھ مسلمانوں کو جموں سے باہر دھکیل دیا ہمارے کچھ پاکستانی بھائیوں نے کشمیریوں کی مدد کیلئے سری نگر کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔یہ لشکر سری نگر کے قریب وجوار میں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ان بھائیوں نے کشمیریوں کی مدد کرنے کے بجائے وہاں لوٹ مار کا بازار گرم کیا عورتوں کی عزتیں تار تار کی یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔بہرحال ہندوستان نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی افواج سری نگر اتاردی ۔قائداعظم نے پاک فوج کے چیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ فوج کو کشمیر روانہ کیا جائے مگر جنرگ گریسی نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ پاک بھارت افواج کے سپریم کمانڈر ” اکن لیک” کے احکامات کا پابند تھا اکن لیک دہلی سے پاکستان آیا اورقائداعظم کو بتایا کہ اگر کشمیر میں پاک فوج کو ملوث کیا گیا تو برطانوی آفیسر اس جنگ میں شریک نہیں ہونگے۔یکم جنوری1948ء کو ہندوستان نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کیلئے درخواست دائر کردی ۔کشمیر کے لیڈر شیخ عبداللہ برطانوی اور امریکہ کے افسروں سے ملاقات کرکے انکو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ریاست جموں وکشمیر کو آزاد ریاست کا درجہ دیا جائے مگر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ امریکہ اوربرطانیہ کے تعاون سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کرلی جس کے مطابق طے پایا کہ کشمیر کا مسئلہ استصواب رائے کے ذریعے حل کیا جائے گا۔کشمیری ریفرنڈم میں فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان اوربھارت میں کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں اس قرارداد پرپاکستان وہندوستان دونوں ناخوش تھے اس قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی کشمیریوں کے برے دن شروع ہوگئے۔ہندوستان ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا ۔

بڑے دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ کشمیر کو ہندوستان سے زیادہ نقصان ان کے نام نہاد ہمدردوں نے پہنچایا ہے ۔1989میں مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے آزادی کی تحریک شروع کر دی ۔پاکستان نے اس تحریک کی اخلاقی اور سیاسی مدد کی ۔اس تحریک کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک تیز ہوئی تو ہندوستان نے اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے ظلم وستم اور جبروتشدد کی انتہا کر دی ۔ امریکہ کی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے تحریرکیا”جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی،ماورائے عدالت ،قتل ،دوسرے سیاسی قتل اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کا انتہائی استعمال پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کا تشدد اور زنا بالجبر ،ملزمان کی پولیس کی حراست میں اموات بلا جواز گرفتاریاں اور نظر بندیاں عروج پر ہیں” ۔

برہان وانی کی شہادت کے بعد آج وادی میں حالات 1990کی صورتحال سے بھی زیادہ کشیدہ ہیں ۔ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر ظلم و بربریت کے شعلوں میں جل رہا ہے ۔نہتے کشمیری ہندوستان کے ظلم و جبر کا مقابلہ دلیری سے کر رہے ہیں ۔وادی کا تعلیم یافتہ نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے ہندوستان کی بربریت کو بے نقاب کر رہے ہیں ۔آج عالمی طاقتیں یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس تحریک کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے ۔جب کسی پر طاقت کا بے جا استعمال کریں گے تو پھر طاقت سے خوف پیدا ہوتا ہے خوف نفرت پیدا کرتا ہے نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور بغاوت طاقت کو توڑ دیتی ہے ۔دوسری طرف 15 اگست کو ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر تاریخی لال قلعہ پر کھڑے ہو کر خطاب کرتے ہوئے پاکستانی صوبہ بلوچستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان علاقوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا جواب دے ۔وہ یہ بھول گیا کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ظلم وستم کی جو تاریخ رقم ہو رہی ہے اس کا حساب کون دے گا ؟ہندوستانی فوج کی بربریت سے کشمیر میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چھ ہندسوں سے بڑھ گئی ہے ۔

ہندوستانی حکومت طاقت کے خمار میں ایک جلاد کا کردار ادا کر رہی ہے مسلمانوں ،سکھوں اور دوسری اقلیتوں سے حیوانوں جیسا سلوک کر رہی ہے ۔کشمیری ہندوستان کی بندوقوں کا سامنا دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں ۔کشمیر کے مسلے کے حل کے لیے عالمی طاقتیں اپنا کردار ادا کریں ۔اگر یہ مسلہ خالصتا کشمیریوں کے ہاتھ میں ہو تو اس کا حل ممکن ہے ان طاقتوں کو اس مسلے سے دور رکھا جائے جن کی دانش مسلے کے حل کی جانب نہیں بلکہ ”فنڈس”کی طرف ہوتا ہے یہ ہمدرد کشمیر کے دونوں اطراف موجود ہیں ۔محقق اور کالم نویس یاسر میر لکھتے ہیں کشمیر میں گزشتہ 27برس کے دوران حکومت ہند کی جو پالیسی رہی ہے اسے مخمل کے لپٹے دستانوں میں فولادی ہاتھ سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی زیادہ سخت عناصر کو قید کیا جائے اور اعتدال پسندوں کے ساتھ مذکرات کا کھیل کھیلا جائے جس کا کوئی واضع نتیجہ نہ نکلے اب کی بار مودی سرکار نے مخمل کے دستانے کو پھینک دیا ہے اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے دہلی کا فولادی ہاتھ برہنہ ہو گیا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے