ریاست، حکومت ، بغاوت، غداری

1۔ اسلامی نظام میں بغاوت کا انحصار اس پر نہیں ہوتا کہ مخالفت حکومت کی ہورہی ہے یا "ریاست” نامی اعتباری شخص کی؛ بلکہ چونکہ اسلامی قانون "اعتباری شخص” کو جانتا ہی نہیں ، اس لیے اس میں بغاوت ہمیشہ حکومت کے خلاف ہوتی ہے لیکن حکومت کی ہر مخالفت بغاوت نہیں ہوتی ، نہ ہی ہر شخص کی جانب سے کی جانے والی مخالفت کو بغاوت کہا جاتا ہے۔ بغاوت تبھی ہوگی جب یہ موقف اختیار کیا جائے کہ حکمران شرعاً حکمرانی کا حق کھو بیٹھا ہے اور پھر باقاعدہ مضبوط جتھا بنا کر طاقت کے استعمال کے ذریعے حکمران کو زبردستی ہٹانے کی کوشش کی جائے ۔ اسے فقہاے کرام "منعہ اور تاویل” کا اجتماع کہتے ہیں۔ اگر صرف تاویل ہو (حکمران کے حق حکمرانی کو ناجائز قرار دیا جارہا ہو) لیکن منعہ نہ ہو (مضبوط جتھا بنا کر حکمران کو زبردستی ہٹانے کی کوشش نہ ہو) تو یہ بغاوت نہیں بلکہ شرعی حق ہے جو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی مسجد میں اپنی موجودگی میں بھی خوارج کے لیے تسلیم کیا تھا۔ اگر صرف منعہ ہو لیکن تاویل نہ ہو تو یہ ڈاکووں کا جتھا ہے جس پر فوج داری قانون کا اطلاق ہوتا ہے، نہ کہ قانونِ جنگ کا۔ جب دونوں اکٹھے ہوجائیں تو یہ بغاوت ہوتی ہے اور اس پر قانونِ جنگ کا اطلاق ہوتا ہے۔

2۔ پھر حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے جواز و عدم جواز کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ مخالفت کرنے والوں کی تاویل صحیح ہے یا نہیں اور حکمران کو ہٹانے کا پرامن راستہ کھلا ہے یا نہیں ، اس وجہ سے کسی بھی مرحلے پر بغاوت کے جواز یا عدم جواز پر دو رائیں ہوسکتی ہیں اور اسی وجہ سے فقہاے کرام نے کہا کہ تاویل کی صحت یا فساد سے قطع نظر، بلکہ تاویل کے فساد کا یقین کرتے ہوئے بھی، جب تاویل اور منعہ کا اجتماع ہوگا تو پھر فریقین پر قانونِ جنگ کا اطلاق ہوگا اور حدود اور قصاص کا اطلاق رک جاتا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جس کے قانونی اثرات نہایت اہم ہیں اور معاصر بین الاقوامی قانون اسی طرف جانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن ریاست کی اعتباری شخصیت اس کی راہ میں مزاحم ہے۔

3۔ مزید یہ کہ بغاوت کی صحت و عدم صحت کا انحصار اس پر بھی ہے کہ حکمران حق پر ہے یا نہیں۔ چنانچہ بغاوت کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ "امامِ برحق” یعنی جائز حکمران کے خلاف ہو۔ اس لیے اگر حکمران ہی غاصب ہو، یا غاصب بن جائے، یا وہی ظلم کررہا ہو، تو ایسی صورتوں میں حکمران ہی شرعاً "باغی” یعنی زیادتی کرنے والا ہے۔ گویا معاصر نظام میں "ریاست” کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا ہمیشہ باغی ہوتا ہے جبکہ اسلامی قانون کی رو سے بعض اوقات حکمران ہی "باغی” ہوتا ہے۔

4۔ عام مسلمانوں کو اگر معلوم ہو کہ کون حق پر اور کون ظلم کررہا ہے تو ان کی شرعی ذمہ داری یہی ہے کہ ظالم کا ہاتھ روک کر مظلوم کی مدد کریں (اور یہی ظالم کی بھی مدد ہوتی ہے، انصر اخاک ظالماً او مظلوماً) لیکن اگر معلوم نہ ہو پارہا ہو کہ کون حق پر ہے، یا دونوں کے متعلق معلوم ہے کہ حق پر نہیں ہیں، تو پھر کسی کا ساتھ دینا جائز نہیں ہے ، البتہ اصلاح کی کوشش ضروری ہے اور وہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر سب سے اجتناب ضروری ہے (فاعتزل تلک الفرق کلھا میں اسی آخری صورت کا حکم بیان ہوا ہے جسے یار لوگ عمومی قرار دے کر ہر صورت پر منطبق کرنا چاہتے ہیں) ۔

5۔ پس بغاوت کی صحت یا عدم صحت کا اصل انحصار اس پر ہے کہ کون حق پر ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن و سنت میں ہی ڈھونڈا جاتا ہے کیونکہ اسلامی نظام میں قرآن و سنت ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟

6۔ پس اصل مطالبہ اسلامی قانون کا یہ ہے کہ قرآن و سنت کی بالادستی کا اقرار کیا جائے اور ہر فیصلے کے لیے انھی کو آخری دلیل مانا جائے۔ "قرآن و سنت سے وفاداری” ہی اصل معیار ہوا اور اس معیار سے انکار ہی "غداری” ہے ، بالکل اسی طرح جیسے دستور پاکستان کی دفعہ 5 کے تحت "ریاست سے وفاداری” کو ہر شہری کا فریضہ قرار دیا گیا ہے اور دفعہ 6 میں دستور کو منسوخ کرنے کی ہر کوشش کو غداری قرار دیا گیا ہے ۔

7۔ پس "ریاست” نامی اعتباری شخص کی عدم موجودگی کے باوجود اسلامی قانون نے حکمرانوں کے استبداد اور آمریت کے سامنے بند باندھا ہے اور امام ابوحنیفہ نے بالخصوص مسلمانوں کے اس حق کو نہایت تفصیل سے قانونی اصولوں کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ نیز آپ کی عملی جدوجہد بھی اس قانون کی عملی تفسیر ہے۔ اس شرعی حق کے اعلان کے باوجود، اور حکمرانوں کے استبداد کا علی الاعلان اظہار کرنے کے باوجود، اور ان کے خلاف اٹھنے والوں کو علی الاعلان برسرحق ماننے کے باوجود، آپ نے عملاً مسلح جدوجہد میں شرکت نہیں کی کیونکہ اس کی شرائط آپ کے نزدیک پوری نہیں ہورہی تھیں، جن میں ایک اہم شرط یہ ہے کہ خونریزی اور فساد کا شر حکمران کے برقرار رہنے کے شر سے زیادہ ہو اور مسلح جدوجہد کے ذریعے حکمران کی تبدیلی کا راجح امکان ہو۔ گویا آپ غاصب اور ظالم حکمران کے خلاف "مشروط حق بغاوت” (Limited Right to Rebellion) کے قائل تھے، مطلقاً نہیں۔

8۔ یہ Limited Right to Rebellion امریکا کے "اعلانِ آزادی” میں بھی موجود ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ جب نظامِ حکومت افراد کے "فطری حقوق” کے خلاف ظلم کا باعث بن جائے تو افراد کا حق ہے کہ وہ اس نظام کو تبدیل کرکے ایک ایسا نظام وجود میں لے آئیں جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے زیادہ مفید ہو۔ واضح رہے کہ امریکی نظام یہ حق "قانونِ فطرت کے دیے گئے حقوق” میں شمار کرتا ہے اور اس تصور کے مطابق یہ فطری حقوق "ریاست” کے اختیار سے باہر (beyond the authority of the state) ہوتے ہیں۔ اسلامی قانون میں حق کا معیار "قانونِ فطرت” نام کی موہوم شے نہیں بلکہ "قرآن و سنت” ہیں۔

9۔ پس بغاوت ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ اس پر کیا جاتا ہے کہ حکمران اور اس کے خلاف اٹھنے والوں میں کون قرآن و سنت کی خلاف ورزی کررہا ہے اور غداری ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اس پر ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کی بالادستی سے انکار ہورہا ہے یا نہیں۔

10۔ اسی لیے عرض کیا تھا کہ جب دستور کی ہر شق کی تعبیر قرآن و سنت کے مطابق کی جائے تبھی یہ تسلیم کیا جائے گا کہ اس نظام میں قرآن و سنت کی بالادستی ہے، ورنہ نہیں۔ جب تک یہ بات تسلیم نہیں کی جاتی، دستور یا قوانین میں ہزارہا نئی "اسلامی” شقوں کے اضافے کے باوجود نظام غیر اسلامی رہے گا۔ یہی وہ بات ہے جس پر اہل علم کو توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ نئے قوانین وضع کرنے کے بجاے دستور اور تمام قوانین کی اسلامی تعبیر!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے