کچھ پڑھتے پڑھتے اچانک ایک خبر پڑھی، کسی نے ائیر مارشل نور خان کی بیوہ کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا تھا۔۔ ہمارے بچے ائیرمارشل نور خان کے نام سے شاید نا واقف ہوں گے لیکن مجھ ایسے کھیلوں کے متوالے کے لیے تلہ گنگ کے علاقہ ٹمن سے تعلق رکھنے والے ملک نور خان کا نام ایک روشن شمع کی طرح ہے جو ہمیشہ ہمارے دلوں میں جھلملاتا رہے گا۔خصوصاً جو حالت اس وقت ہمارے ملک میں کھیلوں کی ہے ۔
نور خان ۔جو ائیر فورس کا حصہ بنے تو پاک فضائیہ کی سربراہی کے منصب تک پہنچے، 1965 کی جنگ میں مختصر ترین وسائل کے ساتھ مکار دشمن کے پسینے چھڑا دیئے، نور خان اور ایم ایم عالم کے نام کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ پی آئی اے میں بطور مینیجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین کام کیا تو قومی ائیر لائن کو بلندیوں پر لے گئے اسے بامنافع بنایا۔ایک مرتبہ پی آئی اے کا جہاز ہائی جیک ہو گیا، ہائی جیکر طیارہ کو بھارت لے جانا چاہتا تھا نور خان اس ہائی جیکر سے مذاکرات کرنے کے لیے خود جہاز میں چلے گئے، مذاکرات میں ناکامی نظر آنے پر نور خان نے کسی مدد کے بغیر خود اس ہائی جیکر پر قابو پایا، اس دوران غالباً انہیں گولی بھی لگی تھی لیکن انہوں نے بائیس مسافروں اور کریو پر آنچ نہیں آنے دی۔
بطور ایم ڈی اور چیئرمین پی آئی اے ،سکواش کو بھی بلندی کی سطح پر لے جانے والے ائیر مارشل نور خان تھے ، ٹیلنٹ رکھنے والے سکواش کھلاڑیوں کو ماہانہ مشاہرہ دیا جاتا تھا ان کے عالمی مقابلوں میں شرکت کے تمام اخراجات برداشت کیے جاتے ، جو اچھی کارکردگی دکھاتا اسے محکمانہ ترقی بھی ملا کرتی۔ قمر زمان، گوگی علاؤ الدین، محب اللہ جونیئر اور جہانگیر خان جیسے کھلاڑی سامنے آئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب سکواش کی عالمی رینکنگ میں دس میں سے پانچ سات کھلاڑیوں کا تعلق پاکستان سے ہوتا تھا۔
چار مرتبہ پاکستان کو برٹش اوپن کا ٹائٹل دلانے والے اعظم خان جو برطانیہ میں سکواش کلب چلا رہے تھے ، ان کو بھی نور خان نے درخواست کی کہ وہ قمر زمان اور محب اللہ کو ٹریننگ دیں۔ ان ہی کے دور میں کراچی میں پی آئی اے سکواش کمپلیکس تعمیر ہوا ۔پاکستان اوپن کا آغاز ہوا۔
یہاں بات ختم نہیں ہوئی پاکستان ہاکی فیڈریشن کی سربراہی ملی تو دنیا نے دیکھا پاکستان میں ہاکی کے فروغ کے لیے بھی انقلابی اقدامات ہوئے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی ملی تو آج بھی پرانے کرکٹرز وہ دور یاد کرتے ہیں۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے باعث 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے چند میچز یہاں پاکستان لانے میں کامیاب ہوئے۔
آج کے دور میں کھیلوں کی تنظیموں کا جائزہ لیا جائے تو کرکٹ اور ہاکی دونوں کا جنازہ بڑی دھوم سے نکل رہا ہے۔ ڈاکٹر نسیم اشرف جب چیئرمین پی سی بی بنے تو لوگوں نے سوال اٹھایا اس نے کب کرکٹ کھیلی ؟ اسے کیوں چیئرمین پی سی بی بنایا گیا ہے؟ ۔۔ شکر ہے اس طرح کا فعال میڈیا نور خان کے دور میں نہیں تھا ورنہ لوگ ان پر بھی انگلیاں اٹھاتے اور وہ خود عہدہ چھوڑ کر چلے جاتے جس طرح انہوں نے مغربی پاکستان کی گورنری چھوڑ دی تھی۔
بہرحال وقت نے ثابت کیا پی سی بی کے اچھے چیئرمین کے لیے کرکٹر ہونا شرط نہیں۔ ڈاکٹر نسیم اشرف بھی اچھے منتظم ثابت ہوئے اور انہوں نے پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی لانے کی لڑائی لڑی، اوول ٹیسٹ کے حق میں جانے والے میچ کا کیس لڑا تو وہ بھی جیتا۔۔ ان کے جانے کے بعد آصف علی زرداری نے اعجاز بٹ کو چیئرمین پی سی بی بنا دیا۔۔ یہاں سے کرکٹ کی تباہی کا آغاز ہوا۔۔ ہم نے وہ تمام جیتے ہوئے کیس ہار دیئے۔ اس کے بعد سے کرکٹ میں بہت ہی کم کوئی اچھی خبر ملی۔
پھر اعجاز بٹ صاحب بہت مشکل سے رخصت ہوئے تو سوچا جا رہا تھا کوئی سمجھ بوجھ والا آدمی چیئرمین پی سی بی بنے گا،مگر ذکا اشرف بن گئے۔۔ سیانے تو وہ تھے مگر اپنے لیے یہاں تک تو بات ٹھیک تھی مگر ن لیگ کی حکومت کو کچھ اور ہی منظور تھا انہوں نے نجم سیٹھی کو جانے کیوں پی سی بی کا چیئرمین بنا دیا؟ ذکا اشرف عدالتوں میں گئے تو ایک دن ذکا اشرف چیئرمین ہوتے عدالت کے حکم پر ۔۔ مگر اگلے روز پھر نجم سیٹھی ہوتے، اس طرح کئی روز یہ عہدہ شٹل کاک کی طرح کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف جاتا رہا۔۔
حکومت نے اس کا اچھا فارمولہ نکالا اورمیرے ہم نام شہریار خان کو لگا دیا چیئرمین پی سی بی لیکن چیئرمین کے تمام اختیارات نجم سیٹھی کو مل گئے۔ نجم سیٹھی نے عالمی معاملات اپنے پاس رکھ لیے اور ڈومیسٹک کرکٹ کی تباہی کی ذمہ داری ایک اور شخصیت کو دے دی۔ یہ شخص بھی بظاہر صحافی ہے مگر آخری خبر کب دی تھی انہیں خود بھی یاد نہیں، یاد ہے تو بس یہ کہ کتنے گراؤنڈز سے کتنے پیسے آنے ہیں۔۔ وقت ملے گا تو ڈومیسٹک کرکٹ کو بھی دیکھ لیں گے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن میں اختر رسول کو ہٹا کر وفاقی وزیر احسن اقبال کے سمدھی بریگیڈئیر (ر) خالد سجاد کھوکھر کو صدر پی ایچ ایف بنایا گیا، دو سال تک پی ایچ ایف کو ایک روپے کی گرانٹ نہ دینے والی وفاقی حکومت نے فوری طور پر گرانٹ جاری کرنا شروع کر دی کیونکہ وزیر اعظم کے سمدھی ڈار صاحب بھی احسن اقبال کی مشاورت کے بغیر کوئی فنڈ جاری نہیں کرتے اور احسن اقبال بھلا اپنے سمدھی کو کس طرح فنڈز سے محروم رکھ سکتے ہیں۔
خالد سجاد کھوکھر خود تو صدر بنے ہی انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کرنل(ر) آصف کھوکھرکو بھی پنجاب ہاکی ایسوسی ایشن میں سیکرٹری بنوا دیا۔ مقامی ایسوسی ایشنز میں کیا کیا جا رہا ہے اس پر بات پھر کبھی کریں گے کیونکہ وہ خود ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن ہاکی میں ہونے والی تمام تبدیلیوں سے ہماری ہاکی ترقی کی منازل طے کرتی نظر نہیں آتی آج بھی سلیکشن کا معیار بہتر نہ ہو سکا، جو خواجہ جنید، خالد بشیر کبھی آصف باجوہ اور رانا مجاہد کے ساتھ ہو ا کرتے تھے آج شہباز سینئر اور خالد کھوکھر کے ساتھ ہیں۔ تبدیلی صرف پی ایچ ایف کی حکمرانی میں ہوئی۔
باقی رہی بات سکواش کی تو اس پر بات کیا کروں گرمی بہت ہے، لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے جناب میرے پر جلنا شروع ہو گئے ہیں ۔۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کھیلوں کی تباہی کی۔۔ بہرحال آج مجھ ایسے تمام کھیلوں کے متوالے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کر رہے ہیں یا اللہ اس ملک کو نور خان جیسی ڈھیر ساری شخصیات دے ، یا کم از کم دو چار تو ضرور بھیج دے،کرکٹ، ہاکی، سکواش کے علاوہ ایک نور خان کی ضرورت پی آئی اے میں بھی ہے۔