اسرائیل ، کیوں نہیں ؟

اسرائیل واحد ملک ہے جسے پاکستان نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ نہ ہی کسی قسم کے کھلے سفارتی تعلقات رکھے۔ ماضی میں کئی مرتبہ لگی بندی اور خفیہ سفارتی سرگرمیاں دونوں ملکوں کے درمیان خبروں میں آئیں لیکن انکی محدود تصدیق نےانہیں مستقل سفارت کاری کا راستہ بننے سے روک دیا۔

شنید ہے کہ سرد جنگ کے دنوں میں افغان جہاد میں بھی اسرائیلی اسحلے نے خاصا کردار ادا کیا تھا۔

پاکستان میں عوامی رائے عامہ ہمیشہ سے اسرائیل کے مخالف تیار کی گئی ہے۔ جس کا تناظر مسلۂ فلسطین سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اس میں ایران اور سعودی اثرورسوخ نے بھی ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ماضی قریب میں ہر دو ممالک اپنی یکسر مختلف خارجہ پالیسیوں کے باوجود اسرائیل کے حوالے سے عمومی طور پر پاکستان میں یک زباں نظر آۓ اور ان ممالک کے زیراثر طبقات بھی اسرائیل کیلئے یکساں مخالفانہ جذبات کا اظہار کرتے دکھائی دیۓ۔

اب بین الاقوامی سطح پر ہونے والی بڑی سفارتی تبدیلی سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ بحال ہوتے سفارتی رابطوں کی شکل میں سامنے آ رہی ہے۔ جس کے بلاشبہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اثرات جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔

ریاست اپنے وجود میں ایک سیاسی ڈھانچہ سموۓ ہوتی ہے۔ اس کی پالیسیاں اور فیصلے ریاست کے اپنے مفاد کے دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ریاست اور شہری کے مفاد پر غیر ملکی محبت اکثر حاوی آتی رہی۔ خصوصاً عوامی رائے عامہ کے حوالے سے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں ایسے پاکستانیوں کی کثیر تعداد موجود ہے کہ جو ایران اور سعودی عرب کی مضبوط سیاسی آواز ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں واقع تمام مقامات مقدسہ کے ازحد احترام کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا لازم ادراک رکھنا ہوگا کہ دونوں ملکوں کا ریاستی ڈھانچہ سیاسی ہے۔ اور دونوں ملکوں کے اپنے سیاسی عزائم اور مفادات ہیں۔

جیساکہ عرض کیا کہ ریاستیں اپنی پالیسیاں اپنے مفادات کے مطابق وضع کرتی ہیں اور اس معاملے میں قطعی غیرجذباتی ہوتی ہیں۔ اس کی بڑی مثال افغانستان میں سامنے آتی ہے جہاں معروف مخالف امریکہ اور ایران، طالبان اور شمالی اتحاد کے حوالے سے طالبان دور میں یکساں جذبات رکھتے تھے۔ اور آج بھی کئی معاملات میں ان کی پالسیاں ایک جیسی ہیں۔ اسرائیل کی مخالفت کے باوجود کوئی عرب ملک حزب اللہ کی تحریکی حمایت نہیں کرتا۔

پاکستان اور اسرائیل کو دو ملکوں کی حیثت سے دیکھتے ہوئے خصوصاً 9/11 کے بعد کی بدلی ہوئی دنیا میں ان دونوں ممالک کے درمیان کا فاصلہ ناقابلِ فہم ہے۔ پاکستان نے متحدہ ہندوستان سے علیحدگی کے ذریعے اپنے وجود کو حاصل کیا۔ شدید رنجش،لاکھوں اموات اور حیدرآباد جونا گڑھ اور کشمیر جیسے تنازعات کے باوجود پاکستان اور ہندوستان نے ایک دوسرے کے وجود کو بطور ریاست تسلیم کیا۔ مشرقی پاکستان نے پاکستان سے علیحدگی حاصل کی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ پاکستان نے اسے بطور ریاست تسلیم کیا اور آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہیں۔

کیا وجہ ہےکہ اسرائیل کو تسلیم کرنا تو دور کی بات اس سے سفارتی رابطوں کے قیام کو بھی ایک حساس معاملہ بنا دیا گیا ہے؟

پاکستان اور چین کے اشتراک سے بننے والا CPEC خطے کا آنے والا معاشی نقشہ تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابل چابہار کی صورت میں ایک متبادل منصوبہ بھی موجود ہے۔ پاکستان کو اس منصوبے کی ابتداء ہی سے اس کی مارکٹنگ پر کام کرنا ہوگا۔ یہ جانتے سمجھتے ہوئے کہ ہماری قربتوں اور اخوتوں کے بہت سے حقدار اسے بنتا دیکھ کر کچھ زیادہ خوش نہیں۔ ایران اس کے مقابل چابہار منصوبے کا سب سے بڑا مالک ہے لیکن ہندوستان بھی چابہار کا بڑا شراکت دار ہے۔ متحدہ عرب امارات گوادر پورٹ، اور اقتصادی راہداری کے بارے میں اپنی علیحدہ رائے اور تحفضات رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی معاشی اور تجارتی طاقتیں اور ادارے فی الحال بظاہر خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کو اچھے شراکت کاروں اور بڑی مارکیٹ کی ضرورت ہے۔ اور ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک اس منصوبے کو اپنے مفاد سے جوڑیں اور اس کے ذریعے فوائد حاصل ہوتے دیکھیں۔

ماضی میں ہمارے مراسم روس سے کچھ خوشگوار نہیں رہے۔ افغان جنگ کے دوران اور بعد تعلقات میں کشیدگی کی سطح کا تناو بھی رہا لیکن آج مراسم میں بہتری آتی جا رہی ہے۔ اسی طرح ہم اسرائیل پر اپنے موقف کا جائزہ کیوں نہیں لے سکتے؟ اب تو سعودی عرب بھی کھل کر اسرائیل کے ساتھ اپنے مراسم بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن ہم مثال کی حد تک تو سعودی عرب کا نام لے سکتے ہیں اسرائیل سے مراسم کا فیصلہ ہمیں بہرحال اپنے مفادات کے تناظر میں ہی کرنا پڑے گا۔

ترکی ،اردن اور مصر جیسے کئی مسلم اکثریتی ممالک کے نہ صرف اسرائیل سے سفارتی تعلقات موجود ہیں بلکہ وہ ان سفارتی تعلقات کو اپنے موقف کے حق میں گاہے بگاہے استعمال بھی کرتے ہیں۔ ترکی کی حالیہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہم لاکھ غزہ کے نام پر پاکستان میں ہڑتالیں کریں جلوس نکالیں دوکانیں توڑیں یا ٹائر جلائیں اس سے نہ اسرائیل کو فرق پڑتا ہے اور نہ ہی غزہ کی حالت تبدیل ہوتی ہے لیکن ترکی کا احتجاج اس لیۓ اثر رکھتا ہے کہ وہ موثر سفارتی احتجاج ہے۔

آج جذباتیت سے پر پرے ہو کر سفارتی سطح پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بدترین حالات میں بھی بھارت سے سفارتی رابطے بنائے ہوئے ہے تو اسرائیل! کیوں نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے