‘ممکن ہے کہ تحریک آزادی کو بدنام کرنے کیلئے بھارت نےخود حملہ کرایا ہو’

اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے مسئلہ کشمیر کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا نقطہ نظر پیش کرے گا۔

مقامی خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ایک مقامی نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹر ویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف واضح ہے، یہ پاکستان کا بنیادی اور اہم مسئلہ ہے جسے مذاکرات ذریعے حل ہونا چاہیے۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہندوستان نہتے کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے اور اب تک ریاستی دہشت گردی میں ہندوستانی فوج نے 90 سے زائد نہتے کشمیریوں کو ہلاک کیا ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ انڈین آرمی کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔

انھوں نے ہندوستان پر زور دیا کہ نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو فوری طور پر روکا جائے۔

وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ یہ خارج از امکان نہیں کہ تحریک آزادی کو بدنام کرنے کیلئے مذکورہ حملہ ہندوستان نے خود کرایا ہو۔

جموں و کشمیر کے اوڑی فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو فصل بوتے ہیں وہی کاٹنی پڑتی ہے۔

خواجہ آصف نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اخلاقی، سفارتی، سیاسی طور پر کشمیر اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا، جن کا ان سے اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں میں وعدہ کیا گیا۔

اس کے علاوہ خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو غصب کررہا ہے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کیلئے پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے۔

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان، پاکستان پر اوڑی حملے کے الزامات لگا کر عالمی برادری کی توجہ کشمیر کے اصل مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کررہا ہے جو اسے مہنگا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ہندوستان کی جانب سے اوڑی فوجی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا تھا۔

دوسری جانب جموں و کشمیر میں اوڑی فوجی کیمپ پر حملے کے حوالے سے ہندوستان کی درخواست پر پاکستان اور انڈین ڈائریکٹر جنرل ملڑی آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا جس میں لائن آف کنٹرول کی صورت حال سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

خیال رہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے قصبے اوڑی میں قائم انڈین فوجی مرکز پر مسلح افراد نے حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 17 فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں اور ہندوستانی فورسز کے درمیان فوجی مرکز کے اندر فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا جس کے بعد تمام 4 حملہ آوروں کو ہلاک کیے جانے کا دعویٰ سامنے آیا۔

ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی اپنا دورہ امریکا اور روس ملتوی کردیا جبکہ ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ اس واقعے کے فوری بعد ہندوستان نے جموں و کشمیر کے علاقے اوڑی میں انڈین فوجی مرکز پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کردیا۔

ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے حملے کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔

راج ناتھ سنگھ نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا کہ ’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اسے پہچانا جانا چاہیے اور تنہا کردینا چاہیے‘۔

ہندوستانی وزیر داخلہ نے ٹوئیٹر پر انتہائی سخت الفاظ میں مزید الزامات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ حملہ آور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے اور وہ انتہائی تربیت یافتہ تھے‘۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 21 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے خطاب میں کشمیر کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے۔

دوسری جانب تجزیہ کار اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ حملے کے بعد نئی دہلی کی جانب سے اسلام آباد پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنا اقوام متحدہ میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہوسکتی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور دوران جھڑپوں اور ہندوستانی پولیس کی فائرنگ سے 100 کے قریب کشمیری ہلاک اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال پر پاکستان نے کئی بار ہندوستان کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن اس نے ہر بار یہ کہہ کر پیشکش مسترد کردی کہ وہ صرف سرحد پار سے ہونےوالی دہشت گردی پر بات چیت کرے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے