تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ن لیگ کے قلب شریفوں کے گھر رائے ونڈ میں کامیاب شو کر کے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ کپتان کے اسلام آباد اور لاہور چیئرنگ ریلی میں شرکاء کی تعداد قابل ذکر نہیں تھی اوپر تلے ضمنی الیکشن میں شکست کے بعد ایک تاثر ابھرا تھا کہ تحریک انصاف بیک فٹ پر چلی گئی ہے مگر کپتان کی کرشماتی شخصیت نے ایک کامیاب شو کر کے پارٹی کے اندر دوبارہ جان ڈال دی۔ ہم نے اپنے لاہور میں ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ صحافی دوست فرحان خان سے اڈا پلاٹ کا محل وقوع اور جلسے میں شرکاء کی تعداد جاننے کیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اڈا پلاٹ لاہور شہر سے چالیس سے 45منٹ کی مسافت پر واقع ہے اس جگہ کو بھرنے کیلئے کم از کم دو لاکھ افراد کا فیگر چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے جلسہ گاہ کے روٹس تبدیل کیے اور کینٹینرز جلسہ گاہ سے کئی کلو میٹر پہلے لگا دیے گئے ،جس سے شرکاء کو کافی سفر پیدل طے کرنا پڑا. اس انتظامی حربے سے یہ تاثر بھی لیا گیا کہ جلسے میں آنے والی خواتین تین چار کلو میٹر پیدل نہیں چل پائیں گی یا کم ازکم مشکل سے وہ فاصلہ طے کریں گی. اس کے علاوہ کئی دن سے لوگوں کو مسلم لیگ نواز کی ڈنڈا بردار فورس سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی چلتا رہا مگر اس کے باوجود لوگ قافلوں کی صورت میں جلسے میں شریک ہوتے رہے .ایک محتاط اندازے کے مطابق شرکاء کی تعداد پونے دو لاکھ سے دو لاکھ کے قریب تھی ۔ فرحان کی باتوں کو درست مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ کپتان جو کہتا ہے وہ کر دکھاتا ہے۔
کپتان کی جتنی بھی تقاریر ہم نے سنیں ان میں سے جلسے میں کی جانے والی تقریر ایک بہترین تقریر تھی ، انہوں نے عوام کے سامنے ایک بڑی سکرین کے ذریعے شریف خاندان اور ان کے حواریوں کے متضاد بیانات کے ثبوت پیش کیے جس کو جھٹلانا مشکل ہے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 10محرم تک اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر دیں ورنہ اسلام آباد جام کر دیں گے۔ ہندوستانی وزیراعظم مودی کو للکارنا اور کشمیریوں کی حمایت میں بولنا پاکستانی عوام کے دل کی آواز تھی جس کو کافی سراہا گیا ۔
کامیاب جلسے کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے حیرت ہوئی کہ خان صاحب اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں۔ یاد رکھیں پیپلزپارٹی کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ نواز شریف کا احتساب ہو اگر احتساب کی چھلنی لگ گئی تو اس میں پیپلزپارٹی کے نام نہاد شرفاء کو بھی گزرنا پڑے گا۔ جلسے سے قبل تحریک انصاف کی قیادت نے پیپلزپارٹی سے جلسے میں شرکت کرنے کی استدعا کی تھی مگر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہم کسی کے گھر پر حملہ نہیں کریں گے ۔ ایک لحاظ سے دوسری سیاسی جماعتوں کا جلسے میں شرکت نہ کرنا کپتان کیلئے سودمند ثابت ہوا ، جلسے کی کامیابی کے بعد وہ دعویٰ کرتے کہ یہ ہم نے ممکن کر دکھایا۔ پی پی قائدین کے منہ سے احتساب کی باتیں سن کر ہنسی آ رہی ہے کہ چھاج بولے تو بولے مگر چھلنی کیا بولے گی جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کپتان نے اپنے آپ کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کر دیا اور پنجاب سے انہوں نے پیپلزپارٹی کا صفایا کر دیا اور ن لیگ کیلئے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کپتان کو حکومت کے خلاف آخری حد تک کیوں جانا پڑا۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سمیت حکومت پانامہ کیس پر عمران خان کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیل رہی تھی ، پانچ ماہ تک ٹی او آرز کا کھیل کھیلا گیا ۔ شریف خاندان اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرنے سے حیل و حجت سے کام لے رہا ہے ۔ کپتان کو ادراک ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ حکمرانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان اس قدر فاصلہ ہے کہ زمین اور آسمان کا فاصلہ بھی کم معلوم ہوتا ہے اہل زر نے شاید کبھی پلٹ کر نہیں سوچا کہ غریب کا دل بھی امیروں کی طرح دھڑکتا ہے اس کا ذہن بھی ویسے ہی سوچتا ہے وہ بھی احساسات رکھتا ہے۔
کتنے سنگدل ہیں حکمران جو اپنی زندگیوں میں عیش بھرنے کیلئے دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور اپنی خواب گاہوں کو رنگین بنانے کیلئے اوروں کے دن رات سنگین بناتے ہیں۔ کرپٹ ٹولے نے کبھی اس طرف دھیان دیا ہے کہ اس بات کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی جب وہ اپنے لخت جگر کو بیس روپے قیمت کے کھلونے کی فرمائش بھی نہیں پوری کر پاتا ہو گا۔اس ماں سے کوئی جا کر یہ پوچھے کہ غربت کے باعث وہ اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے موت کی نیند سلاتی ہے وہ مرنے سے پہلے مر جاتی ہے۔
ایک طرف غربت کے یہ نمونے تو دوسری طرف حکمرانوں کے لوٹ مار کے یہ قصے ، دل دھک دھک کر کے باہر ابلنے کو آ جاتا ہے ، ہمارے وزیراعظم غریب کا نام لیتے وقت ایسے منہ بسورتے ہیں کہ ابھی رو پڑیں گے، لیکن کبھی انہوں نے سوچا کہ ان کا ٹماٹر جیسا لال رنگ کتنے کا لہو نچوڑ کر نکھرا ہے۔ وہ دن میں کئی مرتبہ لباس تبدیل کرتے ہیں کبھی انہوں نے سوچا کہ اس دھرتی پر وہ بھی ہیں جنہیں عید پر پہننے کو لباس نہیں ملتا۔ ہمارے حکمرانوں کے جوتے بھی ریڈ کارپٹ کے بغیر زمین پر نہیں لگتے کبھی انہوں نے غور کیا کہ اس ملک میں کتنی بیٹیاں ہیں جو بالوں میں چاندی آنے تک شادی کے سرخ جوڑے کو ترستی رہ جاتی ہیں۔
مجھے یہ کہنے اور لکھنے میں کوئی آر نہیں کہ کرپٹ حکمرانوں کا بے رحم احتساب کیا جائے ان حکمرانوں کے مطالبے اور خدشے میں رتی بھر وزن نہیں کہ جمہوریت کو نقصان ہو گا۔ کیا اربوں ڈالر لوٹ کر سوئس بنکوں اور پانامہ میں رکھنے سے ملک کو کوئی نقصان ہوا ، یہ جو چاہیں کرتے پھریں ، ملک کی دولت لوٹ کر باہر لے جائیں ، بھوک ، ننگ ، افلاس عوام کا مقدر بنے ، کیا 20کروڑ عوام پر یہ سیاسی بہروپیے فوقیت رکھتے ہیں ، نہیں ہر گز نہیں۔
اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی حکومت اور ان کے حواریوں کو ایزی نہیں لینی چاہیے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ میں نہ مانوں کی روش ترک کر کے معاملات کے حل کیلئے درمیانی راستہ نکالا جائے۔ قومی ادارے بھی اپنا آزادانہ اور منصفانہ کردار ادا کریں۔ اگر معاملات سڑکوں پر حل ہونے کی نوبت آئی تو اس سے ملک کو بہت نقصان ہو گا۔