پیراسائیکالوجی

فلسفہ کے مباحث میں حقیقت کے موضوع کو جو اہمیت حاصل رہی ہے اس کے مقابلے میں شائد کوئی دوسرا تصور قابل توجہ و تجذب رہا ہو۔ صدیوں سے حکمائ اور محققین اس بات پر غوروغوض کرتے چلے آرہے ہیں کہ کسی شے کی ماہیت، اور اس پر لگائے گئے حکم کی قطعیت سے کیا مراد ہے۔ مثلا مادی اور روحانی اشیائ کے درمیان حدفاصل کیا ہوتی ہے اگر کسی شیزوفرینیا کے مریض کو کوئی وہمی چیز نظر آرہی ہو تو کیا ہم اسکو اس کی سپیریچوول سٹیٹ کہ سکتے ہیں اور اگر ساتھ ہی کسی صوفی یا جوگی کو اس طرح کی واردات ہورہی ہو تو اس کو نفسی تجربہ کا نام کیوں دیں گے۔ شیزوفرینیا کے مریضوں کو آوازیں سنائی دیتی ہوں، غیر مرئی چیز دکھائی دیتی ہو،کسی چیز کی بدبو یا خوشبو آرہی ہو یا پھر عجیب و غریب احساسات سے دوچار ہوں، ماہر نفسیات ان سب کو انکےحواس کے تعاملات قرار دیتے ہیں۔

مانند ایں، دنیا میں بہت سے لوگ مشاہدہ غیب کے دعویدار ہیں جو بقول انکے، روحوں اور بد روحوں سے ملتے، ان سے باتیں کرتے اور انکی مدد کرتے یا ان سے مدد لیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی مافوق الفطرت دانست و عرفان کی بنیاد پر ماضی کے خفیہ احوال بتاتے اور مستقبل کی پیش گوئیاں بھی کرتے ہیں۔ جنات نکالنا اور جنات کی مدد سے علاج کرانا، یہ مشاغل تو ہر پرانی اور بڑی تہذیب میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کونسی چیز حقیقی ہوتی ہے اور کونسی خیالئ اور فرضی۔ مافوق الفطرت اور روحانی اشیائ کو مادی اشیائ سے کیونکر الگ کیا جاسکتا ہے اور ورا ئ الغیب کا مطلب کیا ہے۔

دنیا کے بہت سے مذاہب اس بات کا درس خوب زور و شور سے دیتے ہیں کہ کرہ ارض میں انسانوں کے ساتھ ساتھ اور پوشیدہ مخلوقات مثلا روحیں، جنات وغیرہ بھی رہتے ہیں۔ میتھالوجی ، تصوف، اور روحانیات کے بہت سے نظرئے انسانوں اور ارواح کے درمیان تعلق و تعامل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ہماری لوک کہانیوں سے لیکر مذہبی تعلیمات تک، کسی نا کسی طریقے سے ہم بچپن سے ان نظریات سے اشنا ہوجاتے ہیں اور پھر ان کو بطور عقیدہ اپنا کر ساری عمر ان سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا ایسا ایک ناقابل تردید اور قابل یقین سائنس ان تمام روحانی واردات اور نفسی تجربات کے بارے میں ہماری مدد کرسکتی ہے جنہیں بہت کم لوگ توہمات اور ذیادہ تر لوگ عرفانیات، وجدانیات اور گیان کا نام دیتے ہیں۔

پیرا سائکالوجی کے نام سے نفسیات کا ایک شعبہ اس عقدہ کے حل کرنے میں سنجیدہ اقدام کا حامل تھا لیکن سانحہ یوں ہوا کہ امیریکن سائکالوجیکل ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر نے اس کو جعلی سائنس قرار دیکر اس پر ضرب لگائی اور یوں انسانیت کے روحانی معراج کے مطالعہ کا بڑا دروازہ بند کردیا گیا۔ بعد ازیں، نفسیات کے اساتذہ نے بھی پیراسائکالوجی میں دلچسپی چھوڑ دی اور مافوق الفطرت اشیائ کے بارے میں انسان کا علم پرانے نظریات تک محدود رہا۔

پیراسائکالوجی ایک ایسا علم ہے جسکی تشریح و توضیح عملی تربیت سے کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ بذات خود پیرانارمل مظاہر سے بحث کرتی ہے۔ ہپناٹزم، نفسی حرکیات، ٹیلی پیتھی اور ریگریشن جیسے دقیق مگر قابل فہم موضوعات چونکہ طبیعیات اور مابعدالطبیعیات کی فکری گرفت میں نہیں آتے یوں پیراسائکالوجی ہی وہ علمی پرکار ہے جس کے دائرے میں خارج اس حواس اشیائ کا حصول ممکن ہے۔ ہیپنوتھیرپی کا استعمال سگمنڈ فرائڈ کے دور سے دنیا بھر میں نفسیاتی بیماریوں کے لیئے زیر عمل ہے اور اس سے کافی لوگ صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں۔

اگر پیراسائکالوجی کو طبعی سائنس کی طرح تجربہ گاہوں سے گزارا جائے تو عین ممکن ہے کہ روحانیات کے نام پر بندھے ہوئے کئی ایک پھندے عالم بشریات پر کھل جائیں گے۔ اگرچہ پیراسائنسیز، اوکلٹ سائنسیز اور ریلیجس سائنسیز کے نام سے بھی کئی ایک علمی مجالس اور انسٹیٹیوٹ پوشیدہ علوم کو آشکارہ کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان سب پر جدید پیراسائکالوجی کو فوقیت اس وجہ سے حاصل ہے کہ یہ فکری و نظری مباحث کی جگہ تجربی تحقیق و تفتیش اپنالیتی ہے۔

پیراسائکالوجی کے دو اہم شعبے نفسی حرکیات اور خارج از حواس معلومات ہیں۔ تاہنوز، مختلف نفسی و طبعی ماہرین نے انکی سچائی پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ اور جدید تجربہ گاہوں میں انکی تردید بھی ثابت ہوچکی ہے ۔بوجہ ازیں، اسکی نتائج کو سائنسی دنیا میں وہ اہمیت حاصل نہیں جو جنرل سائکالوجی کو نصیب ہے۔ اسکے باوجود پیراسائکالوجی کی ضرورت و احتیاج سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ہمارے پاس جنوں اور روحوں کی موجودگی، حیات بعدالممات، دعا اور تعویذ و تحریر کا اثر، بدنظری، اورا اور تنسیخ جیسے نظریات کے جانچنے کا واحد ذریعہ ہی یہی رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں اسلامیہ یونی ورسیٹی بہاولپورکے شعبہ نفسیات نے سب سے پہلے پیرانفسیات کے ایک کورس کا اغاز کیا تھا جس کے بعد اس سبجیکٹ میں مزید پیشرفت نہیں ہوسکی۔ حالانکہ ہمارے ہاں اس علم کے پھیلانے کی ضرورت دوسروں سے ذیادہ ہے کیونکہ یہاں پر توہم پرستی اور فرسودہ وبیہودہ خیالات کا بازار زیادہ گرم ہے جنکی تطہیر و تدبیر پیراسائکالوجی کی تحقیقات سے ہی ممکن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے