کوکنگ کوئین

ایک فیس بک کی دوست نے کچھ دن پہلے ایک کوکنگ بیکنگ ٹائپ گروپ میں مجھے ایڈ کیا۔ آج ایک خاتون نے 8ڈشز کی تصاویر لگائیں کہ اپنے بیٹے کی سالگرہ پر بنائی۔ اس سے پہلے بھی ایک خاتون نے 10ڈشز سے ٹیبل سجا کر تصویر لگائی کہ اپنی نند کی دعوت سب کچھ خود بنایا

آج کل جہاں پڑھی لکھی خواتین صرف اسی وقت کامیاب کہلاتی ہیں جب وہ اپنی تعلیم کو اچھی تنخواہ میں بدل لیں ورنہ کہا جاتا ہے کیا فائدہ اتنا پڑھنے کا۔ وہاں گھریلو خاتون تو بالکل فالتو اور بیکار سمجھی جاتی ہے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ وہ اپنی تمام تر مہارت مہنگے اورعجیب کھانے پکا کر دکھائے۔ اور اب کھانا پکانا ایک پوری انڈسٹری بن چکا ہے۔ ان خواتین سے گزارش ہے کہ اپنی مہارت اور ہنر کا استعمال اپنے بچوں کو خاص اور مہنگے کھانے کھلا کر اور ان کی "پسند” کے مطابق مزے مزے کے کھانے بنانے کے بجائے ان کی اخلاقی تربیت پر توجہ فرمائیں۔ انھیں سادہ اور اچھی غذا کھلائیں اور ان لوگوں کو ذہن میں رکھیں جنھیں ایک وقت کے کھانے کے لئے کتنی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اس ملک میں 45% بچے غزائی قلت کا شکار ہیں ، جس کی وجہ سے ان کی نشمونما نہیں ہو پاتی وہ اپنے پورے قد کو نہیں پہنچ پاتے، تھر کے علاقے میں کئی سالوں سے میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ نومولود چند دن کی زندگی پاتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو مناسب اور حسب ضرورت خوراک ہی نہیں ملی۔

اپنے بچوں کو احساس سکھائیے، اسے مل بانٹ کے کھانا سکھائیے اسے سکھائیے کہ اگر چیز کم ہو تو قناعت کیسے کرنی ہے دوسرے کا خیال کرکے کہاں وہ اپنا ہاتھ کھینچ لے دوسرے کی عزت نفس کو پامال کئے بنا۔ اسے لالچ اور دوسرے کا حصہ چھننے سے بچائیے۔ اپنے حصے کے بعد دوسرے کے حق پر نظر نہ رکھنا سکھائیے،اسے سکھائیے کہ اپنے خاص دن پارٹی کرنے اور کھانے پینے کے بجائے کوئی صدقہ جاریہ کرکے گزارے، اور یقین کیجئے یہ سب کچھ آپ کا بچہ کھانے کی میز پہ دیگر بہن بھائی یا گھر کے باقی افراد کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھانے میں ہی سیکھ جاتا ہے۔ اور ذرا معاشرے پہ نظر دوڑائیں تو یہی برائیاں ہیں معاشرے میں جن کی وجہ سے وبال ہے۔ روز قیامت الله آپ سے یہ سوال نہیں کرے گا کہ آپ نے اپنے لاڈلے کی سالگرہ پہ کتنے کھانے پکائے یا اپنے امیر اور ہم پلہ رشتہ داروں کے لئے کتنی ڈشز بنائیں بلکہ آپ سے سوال ہو گااولاد کی تربیت کا اور یہ پوچھا جائے کا کہ اپنے غریب اور ضرورت مند رشتہ دار کی مدد کی کہ نہیں ہمسائے کا حال علم تھا کہ نہیں۔

مائیں کم پڑھی لکھی ہوں یا زیادہ، ان کی بہترین skill اور ان کی کامیابی یہی ہے کہ ان کی اولاد معاشرے کے لئے رحمت ہے نہ کہ زحمت۔ کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو شادی سے پہلے کو ایجوکیشن میں پڑھ چکی ہوتی ہیں یا جاب کر چکی ہوتیں ہیں اور جانتی ہیں کو ورکرز میں اگر کوئی لالچی اور ٹانگ کھنچنے والا/والی کولیگ ہو تو کتنی پریشانی ہوتی ہے۔ فوراً خیال جاتا ہے کہ اس کے والدین نے کیسی تربیت کی ہے اس کی۔ خاص طور پر اپنے بیٹے کی تربیت اس طرح کیجیے کہ اسے ساتھ کام کرنے والی یا ساتھ پڑھنے والی خواتین کو عزت کی نظر سے دیکھنا آئے۔ اپنی بیٹی کی تربیت ایسے کیجئے کہ اسے کسی بھی ماحول میں خود کی حفاظت کرنا آئے۔ کٹ کیٹ کیک، نہاری، ساگ ،بریانی، چکن بروسٹ یا لزانیاں سے زیادہ آپ کی اولاد آپ کی پروڈکٹ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کے لئے سوال ہے۔ اور آپ ہر حال میں جوابدہ ہیں۔ اور نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے