وفاق المدارس العربیہ پاکستان ۔۔۔ چند گزارشات

گزشتہ چند دنوں سے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کے بارے میں بعض حضرات کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کل سے باقاعدہ ان کے معطل کئے جانے کی افواہیں عام ہو رہی ہیں ۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلی قاری حنیف جالندھری
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلی قاری حنیف جالندھری

ان پر اس وقت جو اعتراض سب سے زیادہ اٹھایا جا رہا ہے وہ ایک غیر سرکاری تنظیم ” ورلڈ کونسل آف ریلیجنز ” ( عالمی مجلس ادیان ) کے حوالہ سے ہے ، جس کے وہ پاکستان میں چیرمین ہیں ، این جی اوز کا کردار چونکہ پاکستان میں اپنے اہداف و مقاصد کے حوالہ سے مشکوک رہا ہے ، اس لئے کسی این جی او کے ساتھ تعلق از خود انسان کو تحفظ اور شک کی طرف لے جاتا ہے ، لیکن طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ ابھی دسمبر کے شمارے میں حضرت صدر وفاق مدظلہم کی طرف سے جو اداریہ لکھا گیا ہے ، اس میں ایک این جی او ” پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن ” کے نصاب تعلیم کے حوالہ سے اس کی رپورٹ کی روشنی میں اسلام دشمن اہداف و مقاصد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیا گیا کہ :


” ہمیں اس رپورٹ کے ان مندرجات سے انکار کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ گزشتہ پندرہ برس کے دوران ایسے مذہبی افراد اور ادارے ( بلا تفریق مسلک ) ہمارے مشاہدے میں رہے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور اپنے اداروں کو مذکورہ سرگرمیوں کا مرکز بنایا ، پرانی بات نہیں تھوڑا عرصہ قبل جنوبی پنجاب کے ایک دینی ادارے میں جرمنی کی ایک ( بظاہر ) غیر سرکاری تنظیم کے اشتراک سے ورک شاپ منعقد کی گئی ، جس میں مدرسہ کے ذہین طلبہ کو شامل کیا گیا اور ان کے سامنے جس قسم کے مباحث رکھے گئے ان کا خلاصہ مغربی نظریات کی پذیرائی ، پاکستان کے آئین میں شامل قادیانیوں/ اقلیتوں سے متعلق قوانین کے خاتمے اور دینی مدارس میں جدیدیت کے نفوذ کے لیے ذہن سازی کے سوا کچھ نہ تھا ۔ ”

اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس این جی او کے کسی رسالے پر مولانا جالندھری صاحب کی تقریظ بھی ہے ، ہم نے اس سلسلے میں حضرت جالندھری صاحب سے رابطہ کرکے ان کا موقف معلوم کیا ، انہوں نے جو گفتگو کی ، اس کا حاصل یہ ہے کہ :

” دینی مدارس” کے تحفظ ، ان کے دفاع اور ان کی آزادی اور خود مختاری کے لیے ، احقر نے بطور خاص گذشتہ دو عشروں سے وفاق المدارس کے ناظم اعلی ہونے کی حیثیت سے ہر پلیٹ فارم پر جو آواز اٹھائی ہے اور اللہ کے فضل و کرم اور توفیق سے جس کامیابی کے ساتھ دینی مدارس کا مقدمہ لڑا ہے ، وہ آپ کو بھی معلوم ہے اور اس پر ایک دنیا گواہ ہے ، اس سلسلہ میں ، حضرت صدر وفاق دامت برکاتہم اور مجلس عاملہ کے دیگر اکابر علماء کرام کا پورا اعتماد احقر کو حاصل رہا ، کسی بھی اہم موقع پر احقر نے آج تک اپنے ان بزرگوں کے مشورے اور اطلاع کے بغیر کوئی ایک کام بھی نہیں کیا ، وفاق المدارس کا اپنا ایک مستحکم مشاورتی نظم ہے ، مجلس شوری اور مجلس عاملہ ہے اور ان کے توثیق شدہ فیصلوں کے بعد نظام آگے بڑھتا ہے ، جہاں تک این جی اوز سے تعلق کی بات ہے تو "ورلڈ کونسل آف ریلیجنز” ( عالمی مجلس ادیان ) کا میں علامتی چیرمین رہا ہوں ، جس کا بنیادی موضوع پرامن بقائے باہمی کا قیام اور مذہبی امور میں تشدد اور خون ریزی کی بجائے بین المسالک اور بین المذاہب مکالمے کے فروغ کے ذریعے ، انھیں حل کرانے کی کوشش کرنا ہے ۔

اس تنظیم کے ساتھ میرا تعلق ، اب کا نھیں ، دس پندرہ سال پرانا ہے ، اب تو یہ تعلق بالکل رسمی سا رہ چکا ہے اور اس تعلق کا مقصد بالکل واضح ہے ، ہم نے شیعہ ، اہل حدیث ، بریلوی اور جماعت اسلامی کے مدارس کی تنظیموں کے ساتھ ” اتحاد تنظیمات مدارس” کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے جس کے صدر شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ہیں ، یہ اتحاد چند مشترکہ مقاصد کے تحت ہے ، لیکن اس کا یہ تو ہرگز مقصد نہیں کہ ہم اپنے مکاتب فکر کے مدارس میں رافضیت یا بریلویت وغیرہ کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں ، جس طرح یہ اتحاد چند مقاصد تک محدود ہے ، اسی طرح مذکورہ تنظیم کے ساتھ احقر کا تعلق بھی ان چند مقاصد کے حوالے سے تھا ، جن کا ذکر اوپر ہوچکا ۔

[pullquote]اسی تنظیم کے تحت ٢٠٠٤ میں اسلام آباد میں اس مقصد کے پیش نظر ایک سیمینار ہوا جس میں حضرت صدر وفاق شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب ، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اور دیگر علماء نے شرکت کی ۔[/pullquote]


اسی طرح ہم نے حضرت صدر وفاق کی زیر سرپرستی برطانیہ کی دعوت پر وہاں کا نظام تعلیم دیکھنے کے لیے سفر کیا ، ایران کا سفر کیا ، ناروے کا سفر کیا جس میں حضرت صدر وفاق دامت برکاتہم تو خود نہیں تھے لیکن ان کے صاحبزادے مولانا عبیداللہ خالد صاحب ان کی طرف سے بطور نمائندہ شریک سفر رہے اور اوسلو میں رواداری بین المسالک کے حوالہ سے جو معاھدہ ہوا ، اس پر ان کے دستخط بھی موجود ہیں ۔

الحمدللہ جہاں پر بھی اس طرح کا معاھدہ یا اشتراک عمل رہا ، وہ اپنے دین ، اپنے مسلک ، اپنے ملک کی خیر و بھلائی ہی کے لیے رہا ہے ، مدارس دینیہ کے تحفظ ، ان کی خود مختاری اور آزادی و حریت کے لیے اللہ کے فضل و کرم سے احقر نے ایک طویل علمی ، قلمی اور لسانی جنگ اپنے اکابر کے زیر سایہ لڑی ہے ، اور الحمدللہ آج تک بزرگوں کی دعاؤں سے اس محاذ پر سرگرم ہوں ، آج اگر چند عناصر میری اس حیثیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کو خدا کا خوف کرنا چاہیے ۔

جنوبی پنجاب کے جس مدرسے کا ذکر ، متعلقہ تحریر میں کیا گیا ہے ، یہ بالکل خلاف حقیقت اور سو فیصد غلط فہمی پر مبنی ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی دینی ادارے میں قادیانیوں کے لیے راہ ہموار کی جائے اور ذہین طلبہ کو لبرل بنانے کی کوشش کی جائے ، اس طرح کی حماقت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ، باقی ملک دشمن اور دین دشمن اہداف و مقاصد والی این جی اوز کے خلاف ہم نے پہلے بھی آواز اٹھائی ہے اور آئندہ بھی اٹھاتے رہیں گے چنانچہ پیس اینڈ ایجوکیشن کی رپورٹ معلوم ہونے کے بعد ہم نے اسی وقت اس کے خلاف وفاق المدارس میڈیا سینٹر سے بیان جاری کیا جس میں اس تنظیم اور اس کے مقاصد کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ، یہ بیان وفاق المدارس کی ویب سائیٹ پر موجود ہے ۔


[pullquote]باقی رہی بات اس تنظیم کے ایک رسالہ پر تاثرات کی ، تو اس کے ایک کتابچے پر ذاتی حیثیت سے احقر کی ایک تحریر ہے ، احقر کے علاوہ اس پر حضرت مولانا سمیع الحق صاحب ، حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحب اور دیگر علماء کے بھی تاثرات ہیں ، لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب اس تنظیم کی اس طرح کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی ، اب ان سب اکابر کے بارے میں تو یہ بدگمانی نہیں کی جاسکتی کہ یہ حضرات ان کے ساتھ ان اسلام دشمن اہداف میں شریک ہیں ۔
[/pullquote]

یہ تھا حضرت جالندھری صاحب کے موقف کا حاصل ۔

میری گذارش اس میں صرف اتنی ہے کہ حضرت صدر وفاق مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور ناظم اعلی وفاق قاری حنیف جالندھری ان دونوں کا دور ، وفاق المدارس کی ترقی و عروج کا دور ہے ، اور گذشتہ تین دھائیوں سے ان کا ساتھ ہے ، حضرت شیخ ہم سب کے بزرگ اور استاذ المحدثین ہیں ، وہ بجا طور پر بقیہ السلف ہیں اور زندگی کے اس حصے میں ہیں کہ اپنے کسی معتمد اور طویل رفاقت رکھنے والے منتظم کی جدائی ، ان کے لیے بہت تکلیف کا سبب ہوگی ۔

حضرت جالندھری صاحب سے غلطی ہوسکتی ہے اور بالکل ہوسکتی ہے ، لیکن دینی مدارس کے حوالہ سے ان کی مخلصانہ فعال ترجمانی کا یہ ناکارہ گذشتہ دو عشروں سے گواہ ہے ، وہ جامعہ خیر المدارس کے مہتمم اور بانی وفاق المدارس حضرت مولانا خیر محمد صاحب رح کے پوتے ہیں ، خیر المدارس کے فیض سے ایک دنیا آباد ہے اور قرآن کریم کی خدمت کے حوالہ سے شاید کوئی ادارہ اس کے ہم پلہ ہو ، ہمیں بہرحال ان کی ان صلاحیتوں کی قدر کرنی چاہیے ۔

حضرت قاری صاحب سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ اس طرح کی این جی اوز اور بعض سرگرمیوں سے تعلق ختم کردیں کیوں کہ وفاق کا یہ منصب ہر حوالہ سے زیادہ حساس اور دینی اجر و خدمت کے حوالہ سے زیادہ بار آور اور مفید ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے