آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان نے وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کا حصہ بڑھانے اور آزادکشمیر کو مستقل مالی بحران سے نکالنے کے لئے بین الصوبائی رابطہ مہم کا آغاز کردیا ہے ۔اس ضمن میں انہوں نے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کے بعد دو مختلف الخیال صوبائی حکومتوں سے بھی رابطے کئے ہیں جن میں صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک شامل ہیں ۔ دونوں وزرائے اعلیٰ نے وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کا حصہ بڑھانے کی بھرپور حمایت کی ہے ۔اس طرح اب وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کا حصہ بڑھانے کے لئے کسی مزاحمت اور مخالفت کا امکان باقی نہیں رہا۔آئین پاکستان میںاٹھارہویں ترمیم کے بعداسلام آباد سے آزادکشمیر کو ملنے والے ٹیکسوں کا حصہ کم ہو کررہ گیا تھا ۔کل جمع شدہ ٹیکسوں کی آمدن سے آزادکشمیر اور بلوچستان کودو اعشاریہ نوفیصد حصہ دیا جاتا تھا ۔آٹھویں ترمیم کے بعد بلوچستان کا حصہ نو اعشاریہ پانچ فیصدتک پہنچ گیا جبکہ آزادکشمیر کا حصہ دو اعشاریہ نو فیصد ہی رہا ۔اس وقت آزادکشمیر اور اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کی ہی حکومتیں کام کررہی تھیں اس کے باوجود آزادکشمیر حکومت نے اسلام آباد سے محصولات کے اضافے کے لئے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔جس سے آزادکشمیر کا مالی بحران اندر ہی اندر گہرا ہوتا چلا گیا۔مشترکہ مفادات کونسل ،ارسا وغیرہ میں نمائندگی نہ ہونے کی بنا پر آزادکشمیر کا مقدمہ کمزور سے کمزور تر پڑتا چلا گیا۔
پاکستان کے آئینی اور انتظامی ڈھانچے میں آزادکشمیر دوہرے اور عجیب وغریب قسم کی صورت حال سے دوچار ہے ۔یہ خطہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں اور اس بنا پر یہ پانچواں صوبہ یا یونٹ بھی نہیں ۔اقوام متحدہ کی قراردادوں اور معاہدہ کراچی کے تحت اس کا انتظام پاکستان نے سنبھال رکھا ہے اور خود آزادکشمیر کے آئین نے حکومت پاکستان کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں ۔اس لئے وفاقی محصولات کی تقسیم کرتے ہوئے آزادکشمیر کا یہ آئینی اور انتظامی سٹیٹس جسے مخمصہ ہی کیا جا سکتا ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔دوسری طرف وسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادکشمیر اپنے محدود جغرافیے اور آبادی کے باوجود پاکستان کے لئے ایک منفعت بخش خطہ ہے ۔توانائی اور آبی ذخائر کا ایک بڑا ذریعہ منگلا ڈیم کی صورت میں آزادکشمیر میں قائم ہے ۔
آزادکشمیر کے جنگلات اور معدنیات،پن بجلی کے منصوبوں کی آمدن اور ٹیکسز کا بڑا حصہ بالواسطہ یا بلاوسطہ وفاق کو جاتا ہے۔دفاعی لحاظ سے آزادکشمیر کے پہاڑ پنجاب کے میدانوں کے لئے قدرتی حصار کا کام دیتے ہیں۔آزادکشمیر کی سیاسی اور دفاعی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے سردار عبدالقیوم خان مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ آزادکشمیرکو اس کی آبادی اور جغرافیے کے پس منظر کی بجائے اس کی نظریاتی اہمیت کی بنیاد پردیکھنا چاہئے۔کچھ تو آزادکشمیر کا مخمصوں سے بھرپور انتظامی اور آئینی سٹیٹس اس کے مسائل کی حل میں رکاوٹ رہا اور کچھ اسلام آباد میں آزادکشمیر کو بوجھ سمجھنے کا مائنڈ سیٹ غالب رہا اور یوں وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کو جائز حصہ دینے کی بجائے اسے کشکول بردار قسم کی مخلوق اور علاقہ بنادیا گیا ۔جس سے احساس محرومی اندر ہی اندر پلتا رہا مگر آزادکشمیر کی کسی حکومت نے وسائل اور اختیارات کے اپنے مضبوط مقدمے کو سنجیدہ انداز میں اسلام آباد میں لڑنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
آزادکشمیر کے حکمرانوں نے اسلام آباد کے حکمرانوں کی شان میں قصیدہ گوئی اور مونچھ نیچی کر کے وقت گزارنے کی روش اختیار کرلی۔اس سے کسی حکومت اور حکمران کی مدت اقتدار تو بخیریت گزر گئی مگر خطے کے اصل مسائل قومی مفاد کی قالین تلے دبے ہی رہے۔یہ بہت سطحی سوچ ہے کہ مسائل کوبیان کرنے اور حل کرنے سے قومی مفاد کو زک پہنچتی ہے۔حقیقت میں مسائل کو بیان کرنے اور حل کرنے سے قومی مفاد ،قومی سوچ کو تقویت ملتی ہے اور زخم ناسور بننے کی حد تک نہیں پہنچتے۔ آزادکشمیر کے اس مقدمے کی حمایت میں اسلام آباد کے ایوانوں سے ایک توانا آواز اس وقت بلند ہوئی تھی جب امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپیکر سردار ایاز صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جناب سپیکر میری بات توجہ سے سنیں ۔راولپنڈی کے نالہ لئی کا سالانہ بجٹ بارہ ارب روپے ہے اور آزادکشمیر کا سالانہ بجٹ گیارہ ارب پچاس کروڑ روپے ہے آپ آزادکشمیر کے حکمرانوں کا لاکھوں روپے کے لئے اسلام آباد کے سینکڑوں چکرلگوا چکے ہیں ۔آزادکشمیر کو بلوچستان مت بنائیں۔
اب وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے جنہیں خزانہ خالی ،مالی بحران زدہ حکومت اور لوڈشیڈنگ کی سیاہیوں میں گم عوام ملے آزادکشمیر کے وسائل اور مسائل کا مقدمہ اسلام آباد میں لڑنے کا ایک پر خطراور کٹھن راستہ اپنالیاہے ۔اس راہ پر چلنے کا اعلان انہوں نے اسی رات کیا تھا جب قانون ساز اسمبلی کے انتخابی نتائج آنے کا سلسلہ جاری تھا اور مسلم لیگ ن کی انتخابی برتری واضح ہو چکی تھی ۔رات گئے آزادکشمیر ٹیلی ویژن کی الیکشن نشریات میں ان سے پوچھا گیا کہ اب وہ وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں کیا وہ اب بھی آزادکشمیر کے وسائل اور مسائل کا مقدمہ زوردار انداز میں وفاق میں لڑنے کی بات پر قائم ہیں تو فاروق حیدر خان نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ کوئی خفا ہو یا خوش وہ آزادکشمیر کے مسائل اور اختیار کی بات کرتے رہیں گے ۔انہوں نے اس خوش گمانی کا اظہار کیا تھا کہ ابھی اسلام آباد میں قحط الرجال نہیں کہ وہ آزادکشمیر کے حقوق کی بات کو غداری قرار دیں ان کی بات کو اصل سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنے والے بہت لوگ موجود ہیں۔اب یوں لگتا ہے وہ بہت محتاط روی کے ساتھ اس راہ پر چل پڑے ہیں ۔یہ مہم کس حد تک بار آور ہو سکتی یہ کہنا کچھ قبل از وقت ہے۔
بشکریہ : روزنامہ مشرق پشاور