امارات میں پاکستانی سفارت خانہ عوام سے کیاسلوک کرتا ہے؟

چکوال سے میرا دوست ہے ( ہم دونوں بیج میٹ بھی ہیں جبکہ وہ اے ایس ایف کا سابقہ اے ایس آئی ہے ) فیملی ویزہ پراسز کر رہا ہے اسکی فیملی اسکی بیٹی کا پاسپورٹ بنوانے کے لیے متعلقہ آفس گئی تو انہیں کہا گیا کہ آپ کا ب فارم نہیں بنا ہوا لہذا پہلے ب فارم بنوائیں جب انہوں نے ب فارم کے لیے اپلائی کیا تو انہیں کہا گیا کہ بچی کا جو والد ہے اسکا نادرہ کے ڈیٹا میں ریکارڈ غیر شادی شدہ ہے لہذا پہلے اسکے ریکارڈ کو درست کروایا جائے –

آج اسی سلسلے میں وہ پاکستان ایمبیسی کے نادرا آفس میں گیا تھا کہ ریکارڈ درست کروایا جائے ‘ بقول اس کے جب وہ سیکنڈ فلور پر موجود نادرا آفس کے ریسیپشن پر گیا تو اسے کہا گیا کہ اپنے پاسپورٹ کی کاپی ، اصلی شناختی کارڈ اور فارن آفس سے اٹیسٹ اصلی نکاح نامہ لے کر آؤ تب تمھارے ریکارڈ میں درستی کی جائے گی ( یعنی غیر شادی شدہ سے شادی شدہ لکھا جائے گا ) جبکہ اس کی اہلیہ کا شناختی کارڈ پہلے سے ہی تبدیل ہو چکا ہوا تھا ( یعنی نادرا کے پاس پہلے سے ہی اس کے شادی شدہ ہونے کا ریکارڈ تھا جس کے بعد اس کی بیوی کو تین چار سال پہلے شوھر کے خانے میں اس کے نام کے ساتھ شناختی کارڈ ایشو کیا گیا تھا ) اس نے پوچھا کہ بھائی میاں بیوی کا جب نکاح نامہ ایک ہی ہوتا ہے جو نادرا کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے تو اس کے بعد میرے لیے اصلی نکاح نامہ لانا کیوں ضروری ہے ( ایک دم پاکستان سے منگوانا بھی ممکن نہیں تھا ) جب کہ شناختی کارڈ میں فیملی نمبر اور ٹریکنگ نمبر سے سارا ریکارڈ سامنے آ جاتا ہے ؟

اس پر نادرا آفس کے ریسیپشن پر موجود شخص کے پاس کوئی مکمل جواب نہیں تھا جس پر اس نے اصلی کاغذات لانے کی رٹ لگائے رکھی ، خیر بعد میں اس کے ہائر مینجمنٹ سے بات کرنے اور اپنے تعلقات کی دھمکی لگانے ( اس وقت اس کا منیجر وہاں موجود نہیں تھا اور ایسے ہی اعتراضات تقریبا ہر آنے والے پر اٹھائے جا رہے تھا ) پر اسی ریسپشنسٹ نے میل میں موجود نکاح نامے کی سکین کاپی دیکھ کر ہی کام کر دیا تھا – پندرہ سے بیس منٹ کا کام لگ بھگ تین سے چار

ایمبیسی عملے کی نااہلی کی وجہ سے پاکستانیوں کو طویل قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے
ایمبیسی عملے کی نااہلی کی وجہ سے پاکستانیوں کو طویل قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے

گھنٹوں میں ہوا ___ بہرحال الحمد للہ یہاں نادرا کے لوگوں کی نااہلی واضح ہو رہی ہے آپ فرضی نام کے ساتھ سائل کی طرف سے سوال پوچھ سکتے ہیں اس کے تناظر میں اگر مناسب ہو تو –

[pullquote]اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب
[/pullquote]

پاکستان ایمبیسی شیخ زید ملٹری ہسپتال اور ابو ظہبی نیشنل ایگزبیوشن ہال کی عمارتوں سے تھوڑا پیچھے کی طرف الکرامہ سٹریٹ ڈپومیٹک ایونیو میں واقع ہے ( اس سے تھوڑا پہلے ایران اور اعراق کی ایمبیسیاں بھی ہیں ) جب ہم وہاں پہنچتے ہیں دور سے قدرے بہتر ( خوبصورت عمارت ایران کی ہے ) پر عمارت پر پاکستان کا جھنڈا لگا نظر آ جاتا ہے ( جھنڈا غالبا اس حصے پر لگا ہے جہاں سفارتی عملہ بیٹھتا ہے نہ کہ پاسپورٹ سیل ہے ) قریب پہنچنے پر ایک عدد بندوق بردار گارڈ نظر آتا ہے اور پھر پاکستانیوں کی لگی لمبی لائن ( یو ٹیوب پر تھوڑی سی پرانی مگر صحیح ویڈیوموجود ہے )

جب بندہ مین گیٹ ( پاسپورٹ سیل کے لیے الگ سے ایک چھوٹا گیٹ ہے ) سے اندر داخل ہوتا ہے بالکل سامنے فائبر گلاس ( میرا خیال ہے یہ ہی میٹیریل ہے ) سے بنا چوکی نما کمرہ نظر آتا ہے جہاں سے کسٹمر کو لائن میں لگ کر ہینڈ ٹو ہینڈ نئے بنے پاسپورٹ کی ڈلیوری ہوتی ہے جبکہ داخلے کے ساتھ ہی دائیں طرف فوٹو کاپی کرنے والوں کا ایک بے ڈھنگا سا آفس نظر آتا ہے ، جس کی ایک ایک طرف ایسا شخص بیٹھا ہوا ہوتا ہے جو نمبر والے ٹوکن دیتا ہے ( ابھی ہم میں آفس / پاسپورٹ سیل کے اندر داخل نہیں ہوئے ) اور یہ ہی شخص ہر آنے والے بندے کی نئے پاسپورٹ کے لیے پیپر دیکھتا ہے اور سب کو تین چار چار فوٹو کاپیاں کرانے کا کہتا ہے ( غیر ضروری فوٹو کاپیاں اور بھی انتہائی مہنگی سادہ فی کاپی پانچ درہم اور کلر دس درہم میں کی جاتی ہے جبکہ باھر سادہ فی کاپی پچاس فُلس یعنی آدھا درہم اور کلر پرنٹ زیادہ سے زیادہ پانچ درہم میں ہو جاتے ہیں ،

ایمبیسی سے باہر امارات کے قوانین کی وجہ سے ایسا فراڈ ممکن نہیں جبکہ اندر والوں استثنیٰ حاصل ہے پاکستانیوں کی کھال اتارنے کا ) اب تھوڑا سا بائیں مڑ کر مین آفس کا دروازہ ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک گندی سی اور انتہائی مہنگی کینٹین – اب جب ہم اندر داخل ہوتے ہیں تو میں ہال میں پہنچ جاتے ہیں جس کے بائیں طرف چھوٹے چھوٹے کیبن اور دائیں طرف بیٹھنے کی جگہ ، ٹرانسلیٹر آفس اور نوٹری پبلک / اٹیسٹیشن آفس ، غیر ملکیوں کے لیے ویزہ پراسس کا آفس اور اوپر ( نادرا آفس ) جانے کی سیڑھیاں ہیں جبکہ بالکل سامنے سفارت خانے کے اس حصے میں جانے کا راستہ ( ایک بڑے لکڑی کے اندر سے بند دروازے کی صورت میں ) ہے جہاں سفیر اور دیگر عملہ بیٹھتا ہے –

بائیں طرف کیبن والے حصے کے شروع میں ایک وقت میں سینکڑوں لوگوں سے فیس جمع کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں . بینک کا ایک کاونٹر ہے ( جس پر موجود اہل کاروں کے پاس اکثر چینج(ریز گاری) نہیں ہوتی اور عملے کا شخص بھی ساتھ والوں سے گپیں ہانکتا رہتا ہے ) اس کے ساتھ جمع ہوئی فیس کی رسید دیکھنے والا اس سے آگے ڈاکومنٹس پراسس کرنے والا بیٹھا ہے جو ڈیٹا انٹر کر کے بایومیٹرک کرتا ہے اور ان کے ساتھ تصویر بنانے والا ( اب تصویر بنانے کے لیے جو سفید بیک گراونڈ کے لیے بینر لٹکا ہوا ہے وہ بھی شائد کہیں سے اترا ہوا پینا فلیکس کا اشتہار ہے جسے الٹا کر کے لٹکایا گیا ہے ) اس سے آگے فیملی کے لیے الگ سے کاونٹر ہے جہاں ان کے ڈاکومنٹس کی جانچ ہوتی ہے ( اس کاؤنٹر پر بیٹھے شُہدے ٹائپ کے جوان بن تن کر آئی ہوئی خواتین کو مسلسل تاڑتے رہتے ہیں ) اور آخر میں شاید اسسٹنٹ ڈائریکٹر پاسپورٹ سیل یا شاید ان سب کے منیجر ہے کا کمرہ ہے جہاں نمبر آنے پر اپنے پیپر جمع کروانے ہوتے ہیں ، اندر جا کر ( پورے پراسس میں تعلقات کی وجہ سے نمبرنگ یا لائن کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا )

[pullquote]اب فوری طور پر درپیش مسائل پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں
[/pullquote]

دائیں طرف جو کرسیاں لگی ہیں وہ تقریبا آدھی بھی نہیں جتنے لوگ وہاں آتے ہیں اکثر عوام کھڑے ہوتے ہے –

یہ پوچھا جائے کہ جو انگلش شناختی کارڈ بنوایا جاتا ہے اس کا مقصد کیا ہے ؟؟ جبکہ یہاں اس کا کوئی استعمال نہیں سارے کام پاسپورٹ پر ہوتے ہیں

جب اندر ٹوکن دیا جاتا ہے تو اس کا پاس کیوں نہیں رکھا جاتا ؟؟ یعنی سفارش اور اقربا پروری یہاں بھی عام کیوں ہے –

فوٹو گرافر اور ڈیٹا انٹری کرنے والے دونوں شخص ریگولر کام کرنے کے بجائے وقفوں سے کام کیوں کرتے ہیں ( یعنی جب فوٹو گرافر پانچ چھ لوگوں کی تصویریں لے کر انہیں ڈیٹا انٹری والے کے پاس بھیجتا ہے تو اس کے بعد وہ خود اٹھ کر باھر یا تو موبائل استعمال کرنے نکل جاتا ہے یا امیگریشن آفس کی طرف نکل جاتا ہے اور ڈیٹا انٹری والا اپنے پانچ چھ بندے ختم کر کے یہ ہی عمل دہراتا ہے اور پیچھے لوگوں کی لمبی لائن لگی ہوتی ہے انتظار میں ) اتنے سارے لوگوں کے عملہ کم کیوں ہے ؟؟

بے شمار انتظار کرتے لوگوں کی موجودگی میں عملے کے لوگ سوشل میڈیا کا بے دریغ استمعال کرتے ہیں کیا سرکاری لوگوں کو اپنے دفتری اوقات میں ایسا کرنے کی اجازت ہے ؟؟

آج کل جو ان کا منیجر لگا ہوا ہے میرا خیال ہے کہ اس کی سلیکشن اس کی قابلیت کے مطابق نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اسے ہر اہم معاملے میں ڈیٹا انٹری کرنے والے سے مشورہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے ،اس کے متعلق بھی جاننا چاہیئے –

فوٹوکاپی سیکشن میں جو آدمی لوگوں کی میل پرنٹ کرتا ہے وہ بھی اکثر غائب پایا جاتا ہے –

خواتین اور چھوٹے بچوں کے لیے بیٹھنے اور کیش کاونٹر پر الگ سے کوئی نظام نہیں –

امارات میں اکثریت ان پڑھ لوگوں کی ہے جبکہ آفس میں رہنمائی کے لیے کوئی خاص انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایک کاونٹر سے لوگوں کو دس دس بار کاغذ پورے کرنے اور فوٹو کاپی کروانے کے لیے بھیجا جاتا ہے ( ایک بڑی کرپشن جو فوٹو کاپی کی آڑ میں ہو رہی ہے )

سروس کا کم وقت اور عملے کی نااہلی کی وجہ سے ٹوکن کے حصول کے لیے صبح چھ بجے سے بھی پہلے لائن بن جاتی ہے جبکہ آفس آٹھ بجے کھلتا ہے
میں ساتھ میں معلومات کے لیے کچھ لنکس دے رہا ہوں دیکھ لیجئے گا

مزید معلومات کے لیے متحدہ عرب امارات میں‌ پاکستان ایمبیسی کی ویب سائٹملاحظہ کی جاسکتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے