بینکوں کے کھیڑے اور بکھیڑے

اِس اعتراف کے ساتھ کے لاہور کے جانے پہچانے صحافی ، اعجاز رضوی ، اگر آج زندہ ہوتے تو اپنے پسندیدہ محاورے کے مطابق ، مجھے ضدی یا ’کھڑپیچا‘ ہونے کا طعنہ ضرور دیتے ۔ یہ اس لئے کہ میں اِن دنوں ایک ایسے ادارے کے ساتھ سینگ پھنسا ئے بیٹھا ہوں جس سے میری پیشہ ورانہ وابستگی کی بتیسویں سالگرہ میں اب چند ہی ہفتے رہ گئے ہیں ۔ ادارے سے میرا اختلاف نہ تو میرے پارٹ ٹائم کام کی نوعیت کے بارے میں ہے ، نہ کوئی شخصی ، سیاسی یا کاروباری گروہ بندی بیچ میں رکاوٹ بنی ہے ۔ ۔ ۔ بس میرے لئے ان کے اس انتظامی مطالبے کو ماننا ممکن نہیں کہ تم ہمارے پسندیدہ بینک میں اکاؤنٹ کھلواؤ اور اسی کے ذریعے اپنا جز وقتی مشاہرہ وصول کرتے جاؤ ۔ ’بلھے نوں سمجھاون آئیاں ۔ ۔ ۔ بہنا ں تے بھرجائیاں ‘ ۔ مجھے بھی دفتر کے ساتھی سمجھا رہے ہیں کہ بھائی ، اس محکمانہ مطالبے کے پیچھے کوئی چال یا کسی کی ذاتی منفعت ہرگز نہیں ، بلکہ یہ ماہ بہ ماہ ادائیگی کا ایک محفوظ اور یقینی طریقہ ہے ۔ پھر بھی میرا جواب ایک ہی ہے کہ ’ دل وچ رانجھے دا خیال ۔ ۔ ۔میں نئیں جاناں کھیڑیاں دے نال‘ ۔

اگر میرے اس انکار کو تحریک پاکستان کی طرح ایک ’دستوری جنگ‘ خیال کر لیا جائے تو میری دلیل یہ ہوگی کہ کسی مخصوص بینک میں حساب کھولنے کی کوئی شق ہماری طے شدہ شرائط خدمت یا ’ٹرمز آف سروس ‘ میں شامل نہیں ، سو مطالبہ ۔ ۔ ۔ بنیادی طور پہ غلط ہے ۔ کون کہاں پیسے جمع کراتا ہے اور کتنے ، یا پھر کراتا بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ اُسی طرح کی بات ہے جیسے کسی نے ٹھنڈے پانی کا تالاب بنوایا تھا گرمیوں میں نہانے کے لئے اور گرم پانی کا سردیوں میں نہانے کے لئے ۔ جب پوچھا گیا کہ آخر یہ تیسرا تالاب کیوں ، تو بھولپن سے کہنے لگے ’کبھی کبھار نہانے کو دل نہیں بھی چاہتا ‘ ۔ تو یہ ’تھرڈ آپشن‘ ایک ایسی امکانی منطق کی طرف اشارہ ہے جسے زیرِ غور لائے بغیر آپ میری صورت حال کو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔

میں نے زندگی کے کس کس مرحلے پر کہاں کہاں تالاب کھودے ، جن میں گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں یخ بستہ پانی سے نہانا پڑا ؟ اپنے زمانے کے معروف شاعر پنڈت دیا شنکر نسیم کی ’گلزار نسیم ‘ کی طرح میری زندگی کا احاطہ کرنے والی مثنوی بھی طویل ہے ۔ لیکن حاصل غزل ہیں دنیا کے دو بر اعظموں میں بینکاری کی تین الگ الگ شاہراہوں پر وہ نصف درجن باؤلیاں جن پہ شیر شاہ سوری کی بجائے آپ کو میرے نام کی چھوٹی پلیٹ دکھائی دے گی ۔ فرق یہ ہے کہ شیرشاہ کا چشمہء فیض آج بھی جاری و ساری ہے جبکہ میرے ہاتھوں کا کھدا ہوا ہر کنواں ایسے ’ڈہٹھے کھو‘ یا اندھے کنویں میں بدل چکا ہے جہاں بس ایک ہی آپشن باقی رہ جاتی ہے کہ ’نہیں ، نہانے کو دل نہیں چاہتا‘ ۔ اب دفتر والوں کے اصرار پر اگر ایک اور آبی ذخیرہ کھود بھی لیا تو آب زر کا وہ تموج کہاں سے لاؤں گا جس کی مطلوبہ سطح یا بیلنس بینک کے کسی زندہ اکاؤنٹ کو ڈیڈ یا ڈورمنٹ ہونے سے بچائے رکھتی ہے ، یعنی اسے بیمار یا فوت نہیں ہونے دیتی ۔

دانش مند لوگ کہتے ہیں کہ آدمی کی سوچ عام طور پر اس کے حالات کی پیداوار ہوا کرتی ہے ۔ اس لحاظ سے بینکوں کی افادیت کے بارے میں شبہے کا رویہ میرے بچپن کی اس تربیت کا حصہ ہے جس میں روپے پیسے کی ’میٹا فزکس‘ ٹھیک سے ہماری سمجھ میں نہ آ سکی ۔ معلوم نہیں کیا کامپلیکس تھا کہ میرے سیالکوٹی آباء و اجداد کم وسیلہ ہونے کے باوجود سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کو شیوہء مردانگی بلکہ اسلامی تمدنی روایت کے منافی تصور کیا کرتے تھے ۔ اس کے برعکس ، ایسے شیر دل مومنوں کو بہت پسند کیا جاتا جو چادر دیکھے بغیر پاؤں پھیلائیں اور پھر رات بھیگنے کے بعد وجود پر تریل یا اوس پڑنے کی شکایت بھی کریں ۔ میرے والد نے دورانِ ملازمت موٹر کار کی خریداری اور زیر کفالت بہنوں کی شادی کے بہانے اپنے محکمے سے اتنی بار قرض لیا کہ گینز بک آف ریکارڈز میں ان کا نام جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی تعداد میں گاڑیاں خریدنے والے اور سب زیادہ بہنوں کے بڑے بھائی کے طور پہ ہونا چاہئیے ۔

مالیاتی ’اولوالعزمی‘ کے اس تابناک پس منظر کے ساتھ خود مجھے بھی ستر کی دہائی میں عملی زندگی کی ابتدا کرتے ہوئے ، افراط و تفریط سے بچنے میں خاصی دشواری پیش آئی ۔ لاہور کے چینیز لنچ ہوم میں دوستوں کی صبح و شام کی محفلیں ، کھانے میں رعایتی قیمت والے فکسڈ مینو کے علاوہ شامی کباب ، آملیٹ اور دال ماش کے ذیلی آرڈر اور چائے کی لامتناہی چینیکیں ۔ ایک سہ پہر جب ہرے ہرے صوفوں پہ ہر طرف رونقیں لگی ہوئی تھیں ، میں کاؤنٹر پہ ٹیلی فون سننے گیا ۔ ریستوراں کے مالک حاجی حمید کچھ دیر تو مجھے غور سے دیکھتے رہے اور پھر حیرت زدہ سے ہو کر بول اٹھے ’شاہد صاحب ، چودہ سو روپے آپ کی کُل تنخواہ ہے اور بارہ سو روپے اس مہینے کے کھانوں کا بل ہے ۔ آپ کریں گے کیا؟ میں نے یہ بتانے کے لئے کہ شاہد صاحب کیا کریں گے ، اسی لمحے چار دن بعد کی تاریخ ڈال کر چودہ سو روپے کا چیک حاجی صاحب کے ہاتھ میں دے دیا ۔ انہوں نے بل کے بارہ سو کاٹے اور بقیہ دو سو روپے کے نوٹ مسکراتے ہوئے مجھے تھما دئے ۔

حاجی حمید الدین کی مسکراہٹ کے پیچھے اُن کی پیدائشی انسان دوستی جھلک رہی تھی ۔ ساتھ ہی اِس شعور کو بھی دخل ہوگا کہ بل ادا کرنے والا نوجوان عادی ڈیفالٹر نہیں اور چار روز کی مہلت اِس لئے مانگی گئی کہ ’اصلی تے وڈے‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں قائم بینک اساتذہ کرام کو ادائیگی کرنے سے پہلے دو دن لگا کر اِس کا اطمینان کر لیتا ہے کہ تنخواہ کا چیک پاکستان کی بجائے ٹانگا نیکا کے سٹیٹ بینک نے تو جاری نہیں کیا ۔ اس وقت بھی بلھے کو ’بہناں اور بھر جائیاں‘ کچھ نہ کچھ سمجھاتی رہیں ، مگر وہ اس گتھی کو سلجھا نہ سکا کہ بینک کی وجہ سے عام آدمی کو آخر کیا فائدہ پہنچتا ہے ، سوائے اِس کے کہ اپنی ہی حق حلال کی کمائی وصول کرنے کے لئے انتظار کرتا پھرے ۔ پھر بھی حقیقت تک رسائی تو سٹی آف لندن پہنچ کر ہوئی جہاں سینٹ پال کیتھیڈرل کے پچھواڑے لومبارڈ سٹریٹ میں ’سرمایہ پرستی کا سفینہ‘ دیکھ کر انسان پر اقبال کے اس شعر کا مفہوم کھلنے لگتا ہے کہ ’گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ‘ ۔

ان عمارتوں کے سائے میں ایک اور وبا سے بھی پالا پڑ ا ، اور وہ تھی ’پلاسٹک منی‘ ۔ اِس سے چند سال پہلے نارتھ ویلز میں تعلیم کے دوران ’کیش کارڈ‘ سے تعارف ہو چکا تھا کہ اس تعویز نما چیز کے ذریعے بینک کے اندر جائے بغیر آپ چپکے چپکے ایک روزنِ دیوار سے پیسے نکال لیتے ہیں ۔ یہ پتا نہیں تھا کہ اس دوران تہذیبی ترقی کی بدولت کئی طرح کے چیک گارنٹی ، چارج کارڈ ، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ بھی وجود میں آ چکے ہیں ، اور مالی حفظ مراتب کے لحاظ سے اوپر نیچے ان کے کئی کئی درجے ہیں ، جیسے آرڈنری ، سلور ، گولڈ ، پلاٹینم اور خدا جانے اس سے آگے کیا کیا ۔ یوں اپنی ہی نظروں میں اپنا رتبہ بڑھاتے جائیں اور خوش ہوتے رہیں ، لیکن اکثر حالتوں میں یہ خوشی پائیدار نہیں ، عارضی ثابت ہوتی ہے ، کیونکہ ’دیتے ہیں سرور اول ، لاتے ہیں شراب آخر‘ ۔

میں اوروں کی بات نہیں کرتا ، لیکن اٹھائیس سال پہلے میرے ساتھ تو یہی ہوا ۔ بی بی سی کی عالمی سروس کے اس وقت کے صدر دفتر بش ہاؤس کے عین سامنے واقع ایک بڑے سے بینک میں حساب کھولنے سے اول اول تنخواہ جاری و ساری ہو ئی اور پھر کچھ ہی دن بعد بغیر مانگے ایک کارڈ بھی موصول ہو گیا ۔ طالب علمی کے تجربے کی روشنی میں یہ اپنے پیسے نکالنے کے لئے ایک کیش کارڈ تھا ۔ چنانچہ ہم اپنی ضرورتوں کا ایک اندازہ سا قائم کر کے تھوڑی تھوڑی رقم نکلواتے رہے ۔ گڑبڑ کا احساس اس وقت ہوا جب مہینہ ختم ہوتے ہی ایک تحریری سٹیٹمنٹ وصول ہوئی ، جس میں کچھ سود اور کچھ اصل زر ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ موقع محل کی مناسبت سے یہ اصطلاحات مجھے سمجھ سے بالاتر لگیں اور طبیعت پہ بوجھ سا پڑنے لگا ۔

معاملہ طے کرنے کے لئے خود بینک میں جائے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا ۔ اب وہاں جو ڈائیلاگ ہوا ہے وہ کمال کی چیز تھی ۔ نہائت صاف ستھری انگریزی بولنے کے باوجود ، پہلے تو کافی دیر تک متعلقہ افسر اور میں ایک دوسرے کی بات سمجھ ہی نہ پائے ۔ بینک والا حیران تھا کہ یہ آدمی پوچھنا کیا چاہتا ہے ۔ میرا سوال تھا کہ تم کون سے پیسے واپس مانگ رہے ہو ۔ اس نے کہا ’وہی جو تم نے خرچ کئے ہیں ، ساتھ ان پیسوں کا سود بھی ‘ ۔ ’مگر میں تو اپنی تنخواہ کے پیسے خرچ کرتا رہا ہوں‘ ۔ یہ سنتے ہی افسر سمجھ گیا کہ اکاؤنٹ ہولڈر جھکی ہے اور اس نے وضاحت کی کہ تم نے اپنے پیسے نہیں نکلوائے بلکہ اس کریڈٹ کارڈ کے ذریعے قرضہ لے لے کر کھاتے رہے ہو ، جو واپس کرنا پڑے گا ۔ عرض کیا کہ ’اس قسم کا کارڈ تو میں نے مانگا ہی نہیں تھا ، آپ نے کیوں بھیج دیا ‘ ۔ فرمایا ’یہ کمپنی پالیسی ہے‘ ۔ ۔ ۔ میں چپ کا چپ رہ گیا اور سوچنے لگا کہ میرا قصور ہے کیا ۔

اب سے دو سال پہلے لاہور کے ایک نئے فیشن ایبل بازار کے ایک گوشے میں جو انگلش میڈیم ڈاکو پستول دکھا کر میرا بٹوہ لے اڑا ، اُس کی ’کمپنی پالیسی‘ ذرا مختلف نوعیت کی تھی ۔ چنانچہ وقوعے کا اچانک رونما ہونا میرے لئے خوف کا سبب تو بنا ۔ ۔ ۔ لیکن زیادہ پریشانی مجھے نہیں بلکہ ڈاکو کو ہوئی ہوگی کہ اُس نے شکل سے مجھے امیر سمجھ لیا اور پھر گھر جا کر سر پیٹتا رہا کہ پچاس پچاس کے چار نوٹوں کے سوا بٹوے میں سے نکلا ہی کیا ہے ۔ واردات سے ’سرخرو‘ ہونے کے بعد میں نے کئی بار سوچا کہ اگر ’صاحب واردات‘ جس نے مجھے انگریزی بول کر روکا تھا ، اگر اپنی تحویل میں لے کر کسی کیش ڈسپنسر تک لے جاتا اور کہتا کہ اپنا اکلوتا بینک کارڈ استعمال کر کے رقم میرے حوالے کردو تو پتا ہے نتیجہ کیا ہوتا ؟ وہی جو اقبال نے کہا ہے :

’آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر‘

آخر اکاؤنٹ میں کچھ ہو تو نکلے ۔ ۔ ۔ ۔ اگر یہ کارڈ میرے دفتر کے پسندیدہ بینک کا ہوتا ۔ ۔ ۔ تو بھی یہ شرمساری کم نہیں ہو سکتی تھی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے