اسلامی یونیورسٹی نے طلبہ کیلئے قطر کا افطار ڈنر کیوں منسوخ کیا؟

اسلام آباد

سعودی عرب اور قطر کے درمیان سفارتی رنجش اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ اس رنجش کی گونج اب پاکستانی تعلیمی اداروں میں بھی سُنائی دینے لگی۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے سفارتخانہِ قطر کے تعاون سے ہر سال انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے طلبا کے لئے افطار کا پُرتکلف اہتمام کیا جاتا ہے۔ مگر اس سال یونیورسٹی کی جانب سے اس کے انعقاد کو منسوخ کر دیا۔

طلبا نے اس بات کی تصدیق کی کے قطر کا سفارتخانہ ہر سال مقامی اور غیر مُلکی طلباء و طالبات کے لئے ایک افطار پارٹی کا اہتمام کرتا ہے لیکن رواں سال اُن کو روک دیا گیا۔

جامعہ کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے، خیال رہے کے جامعہ کے خالیہ صدر پروفیسر ڈاکٹر احمد یوسف آلدرویش کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان، حسن آفتاب نے اس معاملے کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ تمام طلباء و طالبات امتحانات سے فارغ ہو کے گرمیوں کے چھٹیوں پہ چلے گئے ہیں اور ہاسٹلز خالی ہیں۔

طلباء سے جب اس معاملے پہ بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال بھی انہی دنوں میں افطار کا پُر تکلف اہتمام کیا گیا، اُس وقت تو منسوخ نہیں کیا گیا۔ اُس وقت بھی طلبا موجود تھے اور اب بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

حال ہی میں خلیجی ممالک میں میں ایک بحران دیکھنے میں آیا جس میں سعودی عرب ، مصر ، بخرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے اپنے تمام سفارتی و سماجی تعلقات توڑ دئیے تھے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ قطر اسلامی تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے جو اس کے نزدیک دہشت گردی میں ملوث ہیں ۔

طاہر ملک جو کہ نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہِ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں نے کہا کہ یونیورسٹی کے صدر جو کہ ایک سعودی نیشنل ہیں، کو اپنی علاقائی سیاست کو یونیورسٹی میں نہیں لانا چاہئیے تھا۔ مزید یہ کہ طلباء کو یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول میسر آنا چاہئیے نہ کہ سیاسی بنیادوں پہ تقسیم۔ ایچ ای سی کو معاملے کا نوٹس لینا چاہئیے کیونکہ یونیورسٹی ان کے ماتحت کام کر رہی ہے اور چانسلر صدرِ پاکستان ہیں۔

سعودی عرب نے ماضی میں بھی اسلامک یونیورسٹی میں اپنے اثرورسوخ کا فائدہ اُٹھایا۔ وکی لیکس بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ 2012 میں سعودی سفارتخانہ نے اُس وقت کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فتح محمد ملک کو برطرف کر دیں۔ سعودی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کو اسلامی اصولوں کے منافی چلایا جا رہا ہے۔

وکی لیکس کے مطابق اصل معاملہ کُچھ اور تھا۔ اُس وقت کے وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے ایک ثقافتی شو پہ ایرانی سفیر کو بطور مہمان خصوصی بلایا تھا جو کہ سعودی عرب کو ناگوار گُزراتھا اور اُس کی بھی وجہ صرف اور صرف سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے