پیرس سے حلقہ این اے 120

میں اس وقت پیرس میں ہوں، اسد رضوی صاحب تو پاکستان گئے ہوئے ہیں، مگر صائم بیٹا گھر پر ہی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے میں اور عزیر احمد ’’جیو‘‘ پر شاہ زیب خانزادہ کا شو دیکھ رہے تھے جس میں وہ مسلم لیگ (ن) کے طلال چودھری سے مکالمہ کررہے تھے، یہ دونوں بہت ذہین ہیں۔ شاہ زیب خانزادہ تیکھے سوالات بہت سلیقے سے کرتا ہے اور ایک اور بات جو مجھے بہت پسند ہے وہ جب مسلم لیگ (ن) کے کسی لیڈر سے بات کرتا ہے اور وہ اشاروں کنایوں میں ان قوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان کے خلاف ایک عرصے سے صف آرا ہیں تو وہ کبھی یہ کہتے ہوئے ان کے پیچھے نہیں پڑتا ’’ان کا نام لیں، نام لیں‘‘ حالانکہ انٹرویو دینے والے اور لینے والے دونوں بلکہ اب تو عام لوگوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے اگرچہ وہ تو محض ’’چیزا‘‘ لے رہے ہوتے ہیں۔ طلال چودھری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک ماہر وکیل اور منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح انٹرویوز میں بہت مشکل اور پیچیدہ سوالات کا بہت سلجھے ہوئے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ ویسے ان دنوں مجھے مسلم لیگ (ن) والوں پر بہت حیرت ہورہی ہے کہ وہ ہر طرح کے خطرناک ترین حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں، ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کو اس طرح کی صورت حال پیش آئی مگر وہ ہر دفعہ پائوں جما کر کھڑے نہ رہ سکے۔ اس مرتبہ صورت حال مختلف ہے، خواجہ آصف خواجہ سعد رفیق، درویش سیاست دان پرویز رشید، رانا ثناء اللہ اور مسلم لیگ کے دوسرے بہت سے قائدین تو پوری دلیری سے بات کرتے چلے آتے ہیں مگر مجھے ان دنوں اپنے دوست صف اول کے دانشور اور وفاقی وزیر احسن اقبال پر حیرت ہے جو وہ سب باتیں بغیر اندیشہ ہائےدور دراز کے کرتے ہیں اور ’’سر بازار می رقصم‘‘ کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔
میں جس موضوع پر کالم لکھنے جارہا تھا وہ حلقہ این اے 120کا الیکشن تھا، میرے خیال میں کسی بھی جماعت کے لئے اتنے بدترین حالات میں جو الیکشن سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے لئے پیدا کردیئے گئے تھے، الیکشن جیتنا تقریباً ناممکن تھا۔ ملک کے مقبول وزیراعظم اور جماعت کے رہنما کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا۔ اس کے بعد جے آئی ٹی اور بے شمار جھوٹ اس کے علاوہ جو خان صاحب اور بعض اینکر تواتر سے بولتے چلے جاتے ہیں۔ اس حلقے میں گزشتہ انتخابات میں خود نوازشریف امیدوار تھے۔ اس بار بیگم کلثوم نواز کو میدان میں اترنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی ان کے کینسر کی تشخیص ہوئی اور ابھی تک برطانیہ میں ان کی تین سرجریاں ہو چکی ہیں۔ الیکشن کے دوران مسلم لیگ کے تین فعال کارکن بھی غائب کردیئے گئے۔ اللہ جانے ابھی تک وہ واپس آئے کہ نہیں۔ اس کے علاوہ پولنگ کے دوران بعض ایسی شکایات سامنے آئیں جن کا میں ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ میں ایک دفعہ پھر اپنے چار ماہ پیشتر شائع ہونے والے کالم کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ جس میں میں نے کہا تھا کہ ’’نوازشریف کو دیوار سے نہ لگائیں‘‘ کہ میں جانتا ہوں وہ بہت بڑے فائٹر ہیں، مگر اس بار انہوں نے کئی کمپرومائز کئے جوکچھ لوگوں کے خیال میں ان کے حق میں نہیں گئے۔ بہرحال یہ وہ صورت حال تھی جس میں اکیلی مریم نواز کو جماعت کے جاں نثاروں کے ساتھ الیکشن میں اترنا پڑا۔ انہوں نے بے پناہ محنت کی اور سچ پوچھیں تو جن حالات میں انہوں نے الیکشن لڑا ان کی چودہ ہزار ووٹوں کی جیت ایک لاکھ ووٹوں کے برابر ہے۔
اور ہاں الیکشن کے بعد سے اپنے شیخ رشید نظرنہیں آرہے، انہوں نے مبینہ طور پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ یہ الیکشن جیت گئی تو وہ ایک نجس جانور (جانور کا نام میں نہیں لکھ رہا) کا گوشت کھائیں گے۔ میرے خیال میں وہ نجس جانور ان کی تلاش میں ہے اور کہنا چاہ رہا ہے کہ شیخ صاحب حاضر خدمت ہوں، نوش جاں فرمائیں۔ اورہاں اپنی شیریں مزاری، جہانگیر ترین، علیم خان اور شاہ محمود قریشی بھی کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان نظر آتے ہیں، مگر پہچانے نہیں جاتے، انہوں نے زندگی میں اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ اب ان کے اپنے چہرے کی شکل جھوٹ جیسی ہوگئی ہے۔
کالم کچھ سنجیدہ نہیں ہوگیا؟ تو پھر کیوں نہ کچھ ہلکی پھلکی سی باتیں ہو جائیں، یہ مجھے وٹس ایپ پر موصول ہوئی ہیں۔
ایک تصویر میں تحریک انصاف کی ہارنے والی امیدوار محترمہ یاسمین راشد جو ایک دفعہ نوازشریف اور دوسری دفعہ کلثوم نواز سے شکست کھا چکی ہیں، تصویر میں دو انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہی ہیں، چہرے پر مسکراہٹ ہے اور کہہ رہی ہیں ’’میں دو دفعہ ذلیل ہو چکی ہوں‘‘۔
ایک کارٹون ہے جس کا عنوان ’’عدلیہ کی موجودہ صورت حال‘‘ ہے مگر میں نہیں بتائوں گا کہ اس حوالے سے کارٹون کیا بنایا گیا ہے۔
ایک تصویر مسکراتے ہوئے عمران خان کی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’مبارک ہو، ہم ایک بار پھر ہار گئے ہیں۔
ایک میں تحریک انصاف کے جنازے کو اس کی قیادت کاندھا دیتی دکھائی گئی ہے۔
ایک ٹرک دکھایا گیاہے جس پر لکھا ہے ’’برنال سے بھرا ٹرک بنی گالہ کی طرف رواں دواں‘‘
ایک بہت چبھتی ہوئی اور سپریم کورٹ کے لئے قابل توجہ تحریر:’’ عمران خان کے بقول سترہ ستمبر کو عوام سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گی۔ جج بھی کہہ رہے ہوں گے کہ خود تو ہر بار ذلیل ہوتا ہے، اس دفعہ ہمیں بھی خواہ مخواہ درمیان میں لے آیا‘‘۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کے اکثر ووٹر بطور گائنا کالوجسٹ ان کے ہاتھوں پیدا ہوئے اور جب ان کے ووٹ اپنے خلاف دیکھے ہوںگے تو کہتی ہوں گی ’’میں نے تمہیں کیوں نکالا؟
جماعت اسلامی اور پی پی پی ایک دوسرے کو جائن کر لیں۔
اور ایک آخری بہت جاندار جملہ (باقی تو محض جگتیں تھیں)
’’کاغذ کی ایک بے جان سی پرچی نے کتنی بڑی بڑی قوتوں کو ہرا دیا؟‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے