کیا اسلام کا کوئی معاشی نظام ہے؟

جب بھی ہم دنیا کے معاشی نظام کی بات کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ کبھی آپ کا اسلام کا معاشی نظام پڑھا ہے

اسلام کا معاشی نظام سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کے مدمقابل پیش کیا جاتا ہے

مگر جب اسلام کے معاشی نظام کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اسلام نے کوئی معاشی نظام دیا ہی نہیں ہے بلکہ معاشی وسیاسی اصول دئیے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر ہم نظام بناسکتے ہیں

نظام اور اصول ۔۔ یہ زمین آسمان کا فرق ہے

اسلام کے معاشی اصولوں یہ ہیں کہ سود نہیں لینا، اجرت پسینہ خشک ہونے سے پیشتر ادا کرنا، ملاوٹ نہ کرنا اور زکوة، خیرات، صدقہ، عطیہ، فطرہ کا تصور ہمارے مذہب اسلام نے دیا تاکہ دولت چند ہاتھوں میں جمع نہ ہو

اب ہم ان اصولوں کو سامنے رکھ کر اپنی دنیا، ضروریات اور عہد کے مطابق ایک نظام بنائیں گے، نظام خدائی نہیں ہوتا، اصول خدائی ہوسکتے ہیں

اب اگر ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک نظام بنائیں گے تو زمینوں کی تقسیم، فیکٹریوں کے کام کے طریقہ کار، مزدوروں کے اوقات اور فی زمانہ ان کی اجرت سے لے کر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ دولت چند ہاتھوں میں جمع نہ ہو، اس کا طریقہ کار اسلام نے نہیں بتایا کیونکہ ان باتوں کا تعلق نظام سے ہے، اسلام نے صرف اصول بتائے

اسلامی اصولوں کے عین مطابق جس نظام کا میں نے ذکر کیا، وہ اشتراکیت یعنی سوشلزم ہے

اب آپ یہ کہیں گے کہ اصول تو اسلام کے ہیں تو کارل مارکس نے ان اصولوں کو پرکھے بغیر کیسے اسلام سے قریب تر ایک معاشی نظام بنالیا

تو جناب! اسلام دین فطرت ہے، جو بھی فطرت پہ آئے گا، اسلام سے قریب ہوجائے گا، کارل مارکس نے فطرت سے قریب بات کی اور ایک معاشی نظام بنایا جو بالکل اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے

پھر یہ نظام کسی مولوی نے کیوں نہیں بنایا!

دیکھیں! سوشلزم دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے، یہ کارل مارکس کی ایجاد نہیں ہے، کارل مارکس نے بس اتنا سا کام کیا ہے کہ جدید اکانومی کے مطابق فطری معاشی اصول مرتب کردئیے، اس نے کوئی توپ نہیں چلائی

اور

مسلمانوں میں صوفی شاہ عنایت سے لے کر سچل سرمست تک اللہ والوں نے اشتراکیت کی بات کی، مولانا عبیداللہ سندھی ہوں، مولانا حفظ الرحمان سیوہاری، مولانا حسین احمد مدنی یا مفتی عبدالرحیم پوپلزئی اور ڈاکٹر علی شریعتی ۔۔ سب نے سوشلزم کو اسلامی اصولوں کےمطابق ایک درست معاشی نظام قرار دیا

سوشلزم کفار کا نظام نہیں ہے!

معاشی نظام کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا یعنی کوئی بھی معاشی نظام آپ کے مذہبی عقائد کو متاثر نہیں کرتا بلکہ یہ آپ کے رہن سہن کو متاثر کرتا ہے، اگر آپ خوش حال ہوں گے تو مذہب پر اور خوش دلی سے عمل کرکے اللہ کا شکر بجالائیں گے

سرمایہ دارانہ نظام لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے اور جو لوگ اسلام کے معاشی نظام کی بات کررہے ہیں، وہ مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ نظام کا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں

اگر ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ اسلام کا نظام معیشت کیا ہے تو یہ لوگ اصول گنوادیتے ہیں جبکہ اصول نظام نہیں ہوتے، آپ اسلام کے معاشی نظام پر جتنی کتابیں پڑھیں گے، وہ اصولوں کی تکرار ہیں، انہوں نے کبھی کوئی عملی حل نہیں دیا، غلط تعبیرات سے سوشلزم کا راستہ روک کر سرمایہ دارانہ نظام کی پوزیشن کو محفوظ بنایا جاتا ہے

اگر اسلام نے کوئی نظام دیا تو وہ کہاں ہے؟ اسلامی تاریخ میں اس کا تذکرہ کیوں نہیں؟ اسے سعودی عرب نافذ کیوں نہیں کرتا؟ افغانستان میں طالبان اور شام میں داعش والے اس نظام کو کیوں نہیں اپناتے، یہ تمام لوگ کیپٹلزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اپنا معاشی سسٹم چلاتے ہیں اور جب اسے بدلنے کی بات کی جائے تو اسلام کے معاشی نظام کی بات کردی جاتی ہے اور وہ کبھی نافذ نہیں کیا جاتا

اسلام نے زکوة، فطره، خیرات، صدقات اور عطیات کی بات کسی رسم نبھانے کے لئے نہیں کی بلکہ مسلمانوں کو اس بات پہ آمادہ کیا کہ وہ دولت کو تقسیم کریں، اب اس اصول کو سامنے رکھ کر دولت کی تقسیم کا نظام بنایا جائے گا جو فی زمانہ سوشلزم ہے

اوہ! آپ کو اچھا نہیں لگ رہا نا کہ ایک کافر کارل مارکس کی باتوں پر عمل کریں ۔۔

چلیں اس بیچارے کو دفع کرتے ہیں

آپ اسلامی اصولوں کو سامنے رکھ کر اپنا ایک نظام بنالیں اور اس کا نام المعاشیات فی الحقیقت رکھ لیں، آپ یقین کریں کہ لوگ کہیں گے کہ آپ نے سوشلزم کی کاپی کی

آپ کاپی ہی کرلیں مگر خدارا سود کی لعنت میں لتھڑے گندے سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل آواز بلند کریں کہ اس نے تباہی کے علاوہ انسانیت کو کچھ نہیں دیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے