تنظیمیں عروج و زوال سے گزرتی رہتی ہیں،تنظیموں کی کامیابی و ناکامی کی میزان ان کے نظریات و عقائد ہوتے ہیں، جوتنظیمیں عروج و زوال کے اتار چڑھاو میں اپنے نظریات پر سودا بازی کرتی ہیں وہ خود بخود اپنی انفرادیت اور جازبیت کھودیتی ہیں۔
جماعت اسلامی اس لحاظ سے ایک منفرد جماعت ہے کہ اس نے ایک طرف تو بانی جماعت مولانا مودودیؒ کے افکار و نظریات کا خوب پرچار کیا، ان کی فکر کو اپنانے کی بھرپور سعی کی اور دوسری طرف رفاہی و فلاحی کاموں میں بھی ایک شاندار تاریخ رقم کی۔
اس کے علاوہ تنظیمی سیٹ اپ کے اندر بھی میرٹ کا بھرپور لحاظ رکھا اور دیگر سیاسی و مذہبی تنظیموں سے قدرے ہٹ کر اپنی ایک شناخت قائم کی۔
مولانا مودودی کے بعد جماعت اسلامی کی نظریاتی پالیسیوں اور عملی سیاست میں نمایاں تبدیلیاں آئیں اور ناقدین نے جماعت کے اسلوب پر کھل کر تنقید بھی کی۔جماعت کے ناقدین میں ایک بڑا اور معتبر نام مولانا مودودی کے صاحبزادے حیدر فاروق مودودی کا بھی ہے۔
جماعت اسلامی ، قیام پاکستان سے پہلے ۲۶ اگست ۱۹۴۱کو لاہور میں قائم ہوئی اوراس وقت وقتاً فوقتاً کشمیر، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں اپنے وجود کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ یاد رہے کہ قیامِ پاکستان کے دوران اپنے مخصوص نظریات کے باعث اسے پاکستان مخالف جماعت کے طور پر جانا جاتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد جماعتِ اسلامی کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، ایک حکومت مخالف دور اور دوسرا حکومت موافق دور۔بھٹو کے زمانے تک جماعت اسلامی نے حکومت مخالف جماعت کاکردار ادا کیا اور اس کے بعد جماعت نے حکومت مخالفت ترک کر کے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ موافقت کا راستہ اختیار کر لیا۔
۱۹۷۱ کی جنگ کے دوران الشمس اور البدر کا وجود میں آنا در اصل پاکستانی حکومت کی آواز پر لبیک کہنا تھا۔ الشمس اور البدر کی کمان اس وقت جماعت اسلامی کے نائب امیر خرم مراد کے ہاتھوں میں تھی۔
یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ جماعت نے جس طرح حکومت کی مخالفت کرنے میں ساری حدیں پھلانگ دی تھیں اسی طرح حکومت سے ہمنوائی میں بھی حد سے زیادہ لچک دکھائی اور اس غیر لچکدار رویے یا پھر حدسے بڑھی ہوئی لچک کی وجہ سے جماعت پر بہت سارے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔
مثلاً ناقدین کے مطابق جماعت کی نظریاتی اور عملی پالیسیوں میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ایک طرف سے تو جماعت نظریاتی طور پر عورت کی حکومت کے خلاف ہے جبکہ دوسری طرف جماعت نے ایوب خان کی مخالفت کی غرض سے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ، اسی طرح بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو باطل کہا۔
ناقدین کے مطابق ایک طرف تو جماعت عوامی اور سیاسی جدوجہد کی بات کرتی ہے جبکہ دوسری طرف جماعت نے الشمس اور البدر کی قیادت کر کے مشرقی پاکستان میں سینکڑوں نہتے لوگوں کو قتل کیا، اسی طرح یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایک طرف تو جماعت، اسلامی جمہوریت کا نعرہ لگاتی ہے جبکہ ضیاالحق کی آمریت کا بھی بھرپور ساتھ دیتی رہی، اس کے ساتھ ساتھ جماعت ایک طرف تو پر امن جدوجہد کا دعویٰ کرتی ہے لیکن وہی الشمس اور البدر کا ونگ حزب المجاہدین اور طالبان کے روپ میں اپنی کاروائیاں کرتا ہے نیز یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز سے اسلامی جمعیت طلبہ کے کمروں سے کئی مرتبہ دہشت گرد بھی پکڑے گئے۔
اس ساری صورتحال کے بعد اب پاکستان میں ملی مسلم لیگ وجود میں آگئی ہے۔ملی مسلم لیگ در اصل جماعت اسلامی کا بہترین متبادل ہے، اس میں نظریاتی طور پر وہی لوگ ہیں جن کی اکثریت جماعت اسلامی سے متاثر ہے اور جماعۃ الدعوہ کی صورت میں الشمس اور البدر کی روح بھی اس کی رگوں میں دوڑ رہی ہے۔
سب سے لطیف نکتہ یہ ہے کہملی مسلم لیگ کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کی روش بھی جماعت اسلامی کے مزاج کے عین مطابق ہے اورجہاد کشمیر و افغانستان نیز پاکستانی آئین اور پاکستانی جمہوریت کے بارے میں جماعت اسلامی اور ملی مسلم لیگ کے وژن میں کوئی فرق نہیں اس کے علاوہ رفاہی و فلاحی حوالے سے بھی دونوں کا نقطہ نظر مشترک ہے، باقی جہاں تک شدت پسندوں کو اپنے اپنے سیٹ اپ میں سپیس دینے کی بات ہے تو اس حوالے سے بھی دونوں تنظیمیں انتہا درجے کی فراخدل واقع ہوئی ہیں۔
اسی طرح سعودی عرب کی ہمنوائی اور اطاعت میں بھی دونوں جماعتیں اپنی مثل آپ ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور ملی مسلم لیگ یک جان اور دوقالب کی مصداق بن کر آگے بڑھتی ہیں یا جوان ملی مسلم لیگ بوڑھی جماعت اسلامی کو ہڑپ کرجاتی ہے۔