یہ بات تو طے ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ غیرت مند قوم ہم ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل جسے انگریزی میں honour killingاور جس کا اردو میں ترجمہ ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی نے ’’ناموسی قتل‘‘ کیا ہے، ہماری فخریہ پیشکش ہے۔ غیرت سے لتھڑی ہوئی اِس فلم کا پلاٹ کچھ یوں ہے کہ اگر کسی غیرت مند بھائی کی بہن یا غیور باپ کی بیٹی اپنی پسند کی شادی کی کوشش کرے تو اسے (لڑکی کو) قتل کرکے خود کو پولیس کے سامنے پیش کردو اور ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ میری غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ بہن یا بیٹی ’’یہ کام‘‘کرے۔ اس کے بعد پولیس اور عدالت نیم دلی سے مقدمہ چلاتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ اس کا ڈراپ سین کیا ہوگا اور پھر توقع کے عین مطابق لڑکی کے لواحقین، اگر باپ نے قتل کیا ہے تو بھائی اور اگر بھائی نے قتل کیا ہے تو باپ، قاتل کو معاف کردیتا ہے، ادھر عدالت بھی چار سطریں لکھ کر فارغ ہو جاتی ہے اور لڑکی کا قاتل اسی گھر میں واپس آجاتا ہے۔ سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ اس سارے عمل میں غیرت کے نام پر قتل کرنے کے بعد معافی مانگنا کچھ بے غیرتی سی تھی چنانچہ اب اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے اور اب یہ بے غیرتی نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ امریکہ کی مثالیں ڈھونڈ لاتے ہیں اور اعدادوشمار کی مدد سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہاں بھی محبوباؤں کو دوسرے مرد کے ساتھ دیکھ کر سینکڑوں قتل ہوتے ہیں تب کسی کو honour killingکی اصطلاح یاد نہیں آتی۔ ہمارے یہ دانشور بھول جاتے ہیں کہ ایسے قاتلوں کو معاف کرنے یا انہیں ہیرو بنانے کی کوئی صورت وہاں نہیں، وہ تمام قاتل پکڑے جاتے ہیں اور جیلوں میں سڑتے ہیں، یہاں کی طرح چھاتی پھلا کے نہیں پھرتے۔ ویسے اِن دانشوروں میں سے یہ کسی نے نہیں بتایا کہ وہاں ایسے کتنے قتل ہوتے ہیں جس میں کوئی بھائی اپنی بہن کو اس لئے قتل کر دے کہ اس نے مرضی کی شادی کی! وہ تمام قتل گرل فرینڈ کو غیرمرد کے ساتھ دیکھ کر ہوتے ہیں، دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ہماری غیرت مند طبیعت کا دوسرا ثبوت بھی عورت سے ہی جڑا ہے۔ انیتا ایوب سے لے کر وینا ملک تک اور قندیل بلوچ سے لے کر اب ماہرہ خان تک، ہماری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ اِن میں سے کوئی مختصر لباس میں تصویر کھینچوائے، سگریٹ نوشی کرے یا اپنی مرضی کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرے۔ ان تمام حرکتوں سے ہماری عزت پر حرف آتا ہے یا یوں کہئے کہ ہماری عزت ان خواتین کے ہاتھ میں ہے، یہ جب چاہیں مختصر لباس پہن کر ہمیں بے لباس کردیں۔ تازہ ترین فتنہ اداکارہ ماہرہ خان کی تصویر سے اٹھا ہے، محترمہ کسی قدر کم لباس میں، جس میں ان کے بازو اور کمر نظر آ رہی ہے، بھارتی اداکار رنبیر کپور کے ساتھ غالباً کسی فلم کے سیٹ پر سگریٹ کے کش لگا رہی ہیں۔ اس تصویر نے سوشل میڈیا پر گویا ایک ہیجان پربا کر دیا ہے، ہمارے صوم و صلوٰۃ کے پابند پردہ دار نوجوان جو تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر ٹویٹر کی ٹائم لائن کا معائنہ کرتے ہیں، ماہرہ خان کی یہ تصویر دیکھ کر غم و غصے کے عالم میں ہیں، اُن کی ٹویٹس دیکھ کر اندازہ ہو رہاہے گویا وہ ماہرہ خان کو اپنی سگی بہن سمجھتے تھے اور اداکارہ کی اِس حرکت سے انہیں سخت صدمہ پہنچا ہے۔ اِن باکردار اور صالح نوجوانوں کی ٹویٹس کا لب لباب یہ ہے کہ ماہرہ خان نے پاکستان اور اسلام کا نام تباہ کر دیا ہے، یہ تصویر کھنچواتے ہوئے اسے ذرا خیال نہ آیا کہ وہ ایک پاکستانی اداکارہ ہے، کیا کسی مسلمان عورت کو ایسے کپڑے پہننا زیب دیتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اِن غیرت مند بھائیوں کی ٹویٹس دیکھ کر ہمیں بجا طور پر فخر کرنا چاہئے کہ ہمارے پاس ایک ایسا بریگیڈ ہے جو اپنی قومیت اور مذہب کے بارے میں اِس قدر حساس ہے لیکن اگر آپ اِن بھائیوں کا ٹویٹر یا فیس بک اکاؤنٹ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے ۔ ان میں سے کسی نے باتھ روم میں قمیض اتارتے ہوئے اپنی تصویر بطور ڈی پی لگائی ہے تو کوئی امریکی اداکاراؤں کے پیچھے اس قدر دیوانہ ہے کہ اس کے ہاٹ سین کے لنکس جا بجا شئیر کرتا پھر رہا ہے، سو یہ سمجھ نہیں آئی کہ اِن غیرت مند بھائیوں کی غیرت صرف ماہرہ خان کی کمر دیکھ کر کیوں جاگی، اپنی برہنہ چھاتی دیکھ کر کیوں شرم نہیں آئی! ماہرہ خان یا کوئی بھی اداکارہ جب فلموں میں کام کرتی ہے تو اس سے کہیں مختصر کپڑے پہنتی ہے اور سگریٹ نوشی کرنے سے کہیں زیادہ بولڈ سین کرتی ہے کیونکہ وہ ایک فلمی اداکارہ ہے اور فلموں میں اسی قسم کے کردار ملتے ہیں اور اداکارائیں یہی کچھ کرتی ہیں، ہم ان کی فلمیں دیکھتے ہیں، گانوں پر مدہوش ہو کر ناچتے ہیں اور پھر یہ توقع کرتے ہیں کہ سیٹ پر یہ اپنے ساتھی اداکاروں کو رنبیر بھائی یا شاہ رخ انکل کہہ کر مخاطب کرتی ہوں گی اور سین مکمل کرنے کے بعد یہ برقع اوڑھ کر گھر چلی جاتی ہوں گی۔ ماہرہ خان فلم کی شوٹنگ کے لئے گئی تھی، حج پر نہیں گئی تھی۔
اس معاملے سے جڑی ایک اور بات یاد آئی۔ ہم فلمی صفحات میں اداکاراؤں کے انٹرویو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں، ان سب میں ایک پیرا گراف مشترک ہوتا ہے اور یہ کسی بھی اداکارہ کے نام کے ساتھ جوڑ کر شائع کیا جا سکتاہے :’’میرا تعلق ایک مذہی گھرانے سے ہے، ہماری فیملی شروع سے ہی بہت conservativeہے، بابا بہت سخت تھے، میں کالج برقع اوڑھ کر جایا کرتی تھی، ایک دفعہ میں نے کالج کے کسی ڈرامے میں حصہ لیا تو مجھے گھر سے بہت ڈانٹ پڑی، اُس ڈرامے کی اتنی دھوم مچی کہ مجھے فلم کی آفر ہوئی، میں نے گھر میں امی کو بتایا تو انہوں نے بابا سے بات کی، پہلے تو وہ سخت غصے میں آئے، بالکل نہیں مانے، میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا، پھر بڑی مشکل سے انہوں نے مجھے اجازت دی….!‘‘ما سوائے نورجہاں، نرگس یا قندیل بلوچ جیسی دبنگ عورتوں کے، جنہوں نے جو کچھ کیا ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور بغیر کسی منافقت کے اپنی مرضی کی زندگی جی، شاید ہی کوئی اداکارہ ہو جس نے اِس قسم کی منافقت کا سہارا نہ لیا ہو جیسی ہمیں اِن کے انٹرویوز میں نظر آتی ہے۔ حال ہی میں ایک ٹاک شو میں چند اداکارائیں مدعو تھیں جن میں سے ایک وہ تھی جس کی بطور اداکارہ پہلی فلم کچھ عرصہ پہلے ریلیز ہوئی ہے اور اِس سے پہلے وہ اینکرپرسن تھیں۔ ٹاک شو میں انہوں نے کہا کہ وہ اداکارہ نہیں ہیں، اصل میں تو وہ میڈیا پرسن ہیں، فلم میں کام تو یونہی کر لیا۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ آپ مجھے ’’اُس قسم ‘‘کی فلمی اداکارؤں کے ساتھ بریکٹ نہ کیجئے گا، پلیز! یعنی ایک کام کرنا بھی ہے اور اُس کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ بھی رکھنا ہے، یہ کچھ جچتا نہیں ۔
بات ماہرہ خان کی تصویر کی نہیں، بات اُس منافقانہ رویے کی ہے جس کے تحت ہم خود کو پارسا ثابت کرنے کی غرض سے دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ضروری سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے خود کو ایماندار ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے کو کرپٹ کہا جائے۔
کالم کی دُم: اخلاقی پہلو سے قطع نظر، مجھے ماہرہ خان کی تصویر دیکھ کر تکلیف ہوئی کیونکہ میں انہیں خاصا خوبصورت سمجھتا تھا لیکن تصویر میں موصوفہ کی کمر اور بازو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں کس قدر غلطی پر تھا۔ خدا انہیں پورے کپڑے پہننے کی توفیق دے، آمین۔