جینز اور برگرماڈرن تہذیب کا حصہ

ملالہ یوسف زئی نے مغربی لباس زیب تن نہیں کیا بلکہ ماڈرن لباس زیب تن کیا ہے

مغربی لباس مغرب کے مختلف ممالک کا روایتی و ثقافتی پہناوا کہلائے گا اور اسے شاذونادر زیب تن کیا جاتا ہے
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ دنیا میں مغربی اقدار یا ثقافت فروغ پارہی ہے یا ایک نئی تہذیب نے جنم لیا ہے جو عالمی تہذیب ہے

انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک گاؤں کی شکل دیدی ہے، صومالیہ کے موغادیشو، کیوبا کے ہوانا، امریکا کے لاس ویگاس، پاکستان کے لاہور اور چین کے بیجنگ میں بھی وہی لباس پہنا جاتا ہے جو آسٹریلیا کے سڈنی، کوریا کے سیئول اور عراق کے بغداد میں پہنا جاتا ہے

ایک عجیب بات کہی جاتی ہے کہ ہمیں مغربی اقدار سے خطرہ ہے مگر کیا جینز یا برگر واقعی مغربی اقدار ہیں!
سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں ایک عالمی کلچر تخلیق کیا ہے، مغربی اقدار کے مخالف دراصل اس عالمی کلچر کی مخالفت کرتے ہیں اور نام مغرب کا استعمال کرتے ہیں

اگر یہ ماڈرن کلچر کسی کو نہیں پسند تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرے کیونکہ کیپٹلزم کے پروردہ اس کلچر نے مغربی ثقافت کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا ہے

عریانی، فحاشی یا بے حیائی مغرب سمیت دنیا کے کسی خطے کے کلچر کا حصہ نہیں ہیں، کلچر خوب صورت، مہذب اور بااخلاق روایات کا نام ہوتا ہے، عریانی، فحاشی اور بے حیائی جیسی روایات سرمایہ داروں کی ڈکشنری میں ان کی مصنوعات کی فروخت کا ذریعہ ضرور بنتی ہیں

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ماڈرن کلچر نے آج کے انسان کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے، دوریوں کو مٹا کر زندگیوں کو آسان کیا ہے، آج کا انسان اس ماڈرن کلچر کی وجہ سے ایک دوسرے کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے، اب کسی بات پہ ہمیں تعجب نہیں ہوتا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے