سر رہ گزر سیاسی پھلجڑیاں ’’تڑیاں‘‘

شیخ رشید نے کہا ہے مارچ سے پہلے کِک مارچ ہو گا، خاقان، شہباز، نثار اور سعد جلد پارٹی چھوڑ جائیں گے، سعد رفیق نے جواباً کہا ہے:شیخ رشید، ریاض پیرزادہ کی خواہش پر ن لیگ نہیں ٹوٹے گی، لال حویلی کے بجھکڑ نے ہمیشہ طاقتور کے تلوے چاٹے، جبکہ پیرزادہ نے کہا ہے نواز شریف میرے لیڈر ہیں۔ آپ یوں سمجھیں کہ ایک کرسی ہے میوزک بج رہا ہے سیاستدان حکمران اس کے گرد طواف کر رہے ہیں، یا پھر کوئی سمجھے تو ’’کوکلا چھپاکی جمعرات آئی اے اسے کُڑی دی شامت آئی اے‘‘، یہ تو ایک ظاہری منظر ہے ہمارے ملک کے حکمران و سیاست ساز عوام کے ہنر کا لیکن ان کو کوئی بھی پروڈیوسر ماننے کو تیار نہیں، شیخ رشید عملی زندگی میں بھی اکیلے ہیں سیاسی زندگی میں بھی تنہا، ان کا مشغلہ ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں اور ہو نہیں سکتا کسی طرح وہ ہو جائے، یہ طرز عمل جنت العمقاء کے باسیوں کا ہوتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کو اب درست ہونا ہے اور اس عمل میں ایک مسلسل جراحی جاری رہے گی، میڈیا، پتہ بھی ہلے بتا دیتا ہے، اب تو خبر نہیں تصویر چلتی ہے۔ یہ لگ بھگ ایک ایسا دور ہے کہ گویا مجرم پر اس کے اعضاء گواہی دے رہے ہیں، یہ جو کچھ ’’وہ‘‘ اور ’’یہ‘‘ کہہ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا، اب وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا ، اور اس نے اپنی کتاب حکمت میں اپنے ردعمل کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، حکومتی نابغے ہوں یا حریفوں کے ٹولے ان سب کے سخت سست جملے اور فقرے بازیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی، ہمارے ملک میں اب جو کچھ ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، ڈھٹائیاں ایک طرح سے اعتراف گناہ بن چکی ہیں، کیونکہ جو لذت جرم میں ہے وہ حسن کردار میں کہاں، اور جو لطف اقتدار میں ہے وہ بندگیِٔ پروردگار میں کہاں، پھوڑے جراح کے نشتر کی زد میں ہیں، پیپ نکلے گا گھبرانا نہیں، ہر تخریب کسی تعمیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے، یہ بہت چھوٹی باتیں ہیں کہ اب یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا کسی کو خبر نہیں کہ کیا ہونے والا ہے؟
٭٭٭٭
کیا ہم بیماریاں کھا رہے ہیں؟ یاسر پیرزادہ کے نام
اللہ بھلا کرے میڈیا کا کہ جیسا بھی ہے کچھ بتا کر چھپا اور کچھ چھپا کر بتا جاتا ہے، ان دنوں جہاں انسانوں کا ظاہر باطن سامنے آ رہا ہے یہ بھی معلوم ہونے لگا ہے کہ ہم کیا کھا رہے ہیں، خوبصورت جاذب نظر پیکنگ میں کیا ہوتا ہے، اس کی حقیقت کیمرے کی آنکھ بتا دیتی ہے کہ اسے تیار کیسے کیا جاتا ہے، جرم صرف قومی خزانہ لوٹنے تک ہی نہیں، جرم کی دیگیں جس کٹڑے میں پکتی ہیں وہاں کا ہولناک منظر دیکھ دیکھ کر ہر چیز کھاتے وقت وہ مناظر جو میڈیا نے دکھائے ہوتے ہیں آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور ہاتھ سے لقمہ چھوٹ جاتا ہے، ملاوٹ کہنے کو ایک لفظ ہے مگر یہ اشیائے خوردنی میں جس کثرت سے کی جاتی ہے، اس نے ہر بندے کے ساتھ اس کے مرض کی تشخیص اور اسباب کھول کر رکھ دیئے ہیں، ملاوٹ کی ایک ایسی قسم بھی سامنے آئی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ہے بے گناہی میں گناہ کی ملاوٹ، یہ کام ہماری پولیس انجام دینے میں کمال مہارت رکھتی ہے، ایک مثال سے ہی اندازہ لگا لیں باقی سے بھی پردہ اٹھ جائے گا، چھرا مار پیش کرنے کے لئے پولیس نے چھرا مار پیدا کرنے کا کام شروع کر دیا ہے، کسی بھی موٹر سائیکل پر سوار نوجوان کو پکڑ کر لے جایا جاتا ہے اور اس پر اتنا تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ اقرار کرے ہاں میں ہی چھرا مار ہوں، یہ چھرا مار کون ہے، اس کے بارے ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ پکڑنے پکڑوانے والوں ہی کی پروڈکٹ ہے، ورنہ یہ کب کا پکڑا جا چکا ہوتا، ہمارے معاشرے میں بھی خلا کی طرح کئی بڑے بڑے بلیک ہول ہیں، یہ چھری مار اپنا کام کر کے ایسے ہی کسی بلیک ہول میں غائب ہوتا اور وہیں سے نکلتا ہے، کھانے پینے کی چیزیں تلف کرنے کے بجائے اگر یہ کام کرنے والے تلف کئے جائیں تو اس ملک میں ملاوٹ ختم ہو سکتی ہے اگر اپنے مقاصد کے لئے قانون سازی کی جا سکتی ہے تو ملاوٹ پر عبرتناک سزا دینے کے لئے کوئی ایسا سخت قانون نہیں بنایا جا سکتا کہ کوئی ملاوٹ کرنا تو کجا اس کا سوچ بھی نہ سکے۔
٭٭٭٭
ایک اور پیدائش اسپتال کی دہلیز پر
ہمارے ہاں صحت کا محکمہ جس قدر غیر صحت مند ہے اس کا ہی نتیجہ ہے کہ غیر صحت مند معاشرہ نہ صرف جنم لے چکا ہے بلکہ جوان ہو کر وارداتیں بھی کر رہا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر حضرات و خواتین کتنے ناترس ہیں کہ مریض مر رہے ہیں اور وہ ان کا علاج نہیں کرتے، بات یہ نہیں دراصل نظام بیمار ہے اور اس کے لئے اب اکا دکا اسپتال کا م کرنے لگے ہیں مگر وہ بہت کم ہیں، پھر یہ کہ ہمارے قانون میں غلام گردشیں، بارہ دریاں، بند گلیاں اتنی ہیں کہ اس نقار خانے میں چور گم ہو جاتا ہے، دو گھنٹے میں فیصل ہونے والا مقدمہ دو برس میں بھی انجام کو نہیں پہنچتا، رائیونڈ اسپتال کے باہر سڑک پر اور گنگا رام اسپتال کی چوکھٹ پر پیدا ہونے والے بچے کسی وزیر، مشیر، بیورو کریٹ، ایم این اے، ایم پی اے کے ہوتے تو کیا اسپتالوں کو سڑک نہ بنا دیا جاتا ہے ہماری ’’خوش قسمتی‘‘ یہ ہے کہ یہ بچے عام غریبوں کے تھے، جن کا بس نہیں چلتا، جن کے پاس کوئی وی آئی پی پروٹوکول نہیں، جو کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، جنہوں نے کرپشن کی امیر ہوئے سیاست میں داخل ہوئے اور امیر ہو گئے اور با اختیار بھی جب ہم نظام کرپٹ افراد کے ہاتھ میں دے دیں گے تو وہ اسے بے لگام ہی بنائے گا، محکمہ صحت بھی تو حکومتی ادارہ ہے، اس کا نظام درست ہوتا تو رائیونڈ اور گنگا رام کے باہر پیدا ہونے والے بچے گائناکالوجی تھیٹر میں پیدا ہوتے، زچہ بچہ پر ان کے دیئے ہوئے پیسے خرچ کئے جاتے، عوام کی قسمت دیکھیں کہ پیسہ ان کا عیش لٹیروں کے، جب تک کسی ریاست کا نظام بیمار ہے اس کا کوئی معالج نہیں، ہمیں ڈاکٹر سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ بقول غالبؔ؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
٭٭٭٭
لو آیا پیار کا موسم!
….Oپی پی پنجاب کے ندیم افضل چن نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ابھی پت جھڑ کا موسم تو دور ہے، شاید نیشنل وارمنگ کے اثرات ہیں،
….Oمریم نواز:والد پر فرد جرم سے ڈکٹیٹر کا دور یاد آیا،
مگر غور سے دیکھیں یہ تو سویلین عدالت ہے، پھر ڈکٹیٹر کیوں یاد آیا۔
….Oایم کیو ایم نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر سلمان بلوچ کو نکال دیا۔
سلمان بلوچ نے ایسا کیا نکال کر دکھا دیا کہ اسے نکال دیا،
شاید یہ نکالنے کا موسم ہے، ایم کیو ایم کا کوئی قصور نہیں،
….Oفرحت بابر نے قائمہ کمیٹی دفاع سے استعفیٰ دے دیا،
یہ بھی اسی نکالنے کے موسم کا اثر ہے۔
….Oشیخ رشید ان دنوں گراں قدر پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں،
پھر وہ اور کیا کریں، بہرحال ان کا نہ کرنا اعتبار کوئی!
….Oشہباز شریف سے چوہدری نثار کی ملاقات،
ہمیں کیا، وہ شہباز شریف سے نہیں تو کیا شیخ رشید سے ملاقات کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے