سررہ گزر اور اب انٹر نیٹ چوری؟

پی ٹی سی ایل کے اب بھی 74فیصد شیئرز حکومت کے پاس ہیں گویا لگ بھگ یہ قومی ادارہ بھی ہنوز سرکاری ہے، ہمارے علم میں تو صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں انٹرنیٹ چوری کرنے کرانے کی خبر ہے، شہر بھر میں ایسے سینٹرز موجود ہیں جو 100ایم بی سے لے کر لامحدود ایم بی محکمے سے خرید لیتے ہیں ایک نے تو اعتراف کیا کہ فتح گڑھ عامر ٹائون میں وہ 100ایم بی پی ٹی سی ایل سے کچھ باقی نجی کمپنیوں سے خرید کر آگے سپلائی کر رہا ہے اس نے کھلی آفر دی کہ تین ہزار ماہانہ دیتے جائو اور جتنا چاہو تیز اسپیڈ والا انٹرنیٹ جی بھر کے استعمال کرو، ہم ایک عرصے سے اس کھوج میں تھے کہ عامر ٹائون ہربنس پورہ کے علاقے میں جو باقاعدہ بونا فاٹیڈ پی ٹی سی ایل کسٹمرز ہیں اور باقاعدگی سے گونا گوں ٹیکسوں بھرا بل ہر ماہ ادا کرتے ہیں ان کا انٹرنیٹ 12ایم بی پر چلتا ہے نہ آٹھ، چار، چھ اور دو پر اگر چلے بھی تو سست اور رُک رُک کر چلتا ہے، جس کے نتیجے میں انٹرنیٹ چلتا ہے نہ اسمارٹ ٹی وی جبکہ جنہوں نے ان 100ایم بی یا اس سے زیادہ ایم بی کا کنکشن رکھنے والوں سے صرف 3 ہزار ماہانہ دے کر تیز ترین اور مسلسل بلا رکاوٹ انٹر نیٹ کنکشن حاصل کر رکھا ہے انہیں کوئی مسئلہ ہی نہیں، ہم نے تمام پی ٹی سی ایل افسران سے رابطہ کیا انہوں نے کہا یہ ممکن ہی نہیں، ہم نے جن سے کسٹمر بن کر معلومات حاصل کیں اور بعد میں اعتراف بھی وہ اپنا سورس نہیں بتا رہے تھے مگر کسی طرح باتوں ہی باتوں میں انہوں نے اعتراف کر لیا کہ انہوں نے 100ایم بی کا کنکشن حاصل کر رکھا ہے اور ہربنس پورہ عامر ٹائون میں 3000روپے ماہانہ پر انٹرنیٹ کی سہولت اپنی تار لگا کر فراہم کرتے ہیں، ہمیں تو انہوں نے کہا اگر آپ لگوانا چاہیں تو ایک گھنٹے میں یہ انٹرنیٹ آپ کے ہاں نصب کر دیا جائے گا، وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن پی ٹی سی ایل کی طرف بھی توجہ فرمائیں اور اس ’’پی ٹی سی اِن چھابہ‘‘ اسکینڈل کا نوٹس لیں، لاہور کے چیف ایگزیکٹو پی ٹی سی ایل سے پوچھیں کہ ان کی ناک تلے یہ کچھ کیوں ہو رہا ہےریٹ بھی بتاتے چلیں کہ 35ہزار ماہانہ ادا کر کے 100ایم بی کا کنکشن حاصل کریں اور اپنا ایک غیر قانونی پی ٹی سی ایل کھول لیں کمائی کریں۔ محکمے کو بھی کھلائیں خود بھی کھائیں، حکومت پنجاب، مرکزی حکومت ان معاملات کی تحقیقات کرائے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
٭٭٭٭
گالیاں دے کے بے مزا نہ ہوا
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے:عمران خان گالیاں دے کر معافی مانگ لیتے ہیں۔ آج کل سیاستدانوں کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اگر گلالئی کی بات سچ مان لی جائے تو خان صاحب کی حمایت میں کہا جا سکتا ہے؎
یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں!
مگر عائشہ نے بڑی دیر کر دی جب دھرنوں کے سیزن میں منوں منشیات ریڈ زون اور بنی گالہ لائی جا رہی تھیں قومی مفاد میں اسی وقت ایک نشئی لیڈر سے بغاوت کر کے حکومت کو بروقت اطلاع دے کر عمران کو رنگے ہاتھوں پکڑوا دیتیں مگر گلالئی بھی تو نہ جانے کس انتظار میں چار سال خاموش رہیں، چلو اب بھی بتا دیا تو باسی خبر کا بھی اپنا ایک مزا ہوتا ہے، بلکہ نشہ ہوتا ہے، سائیں خورشید سندھ جب سے آسمان سیاست پر طلوع ہوئے ہیں، ایسی سحر پھوٹی ہے کہ اس پر رات بھی ہنستی ہے، وہ ایک ایسے لیڈر کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ ٹرک کی بھی ہنسی چھوٹ گئی اور اس کا ٹائی راڈ کھل گیا۔ ہمارے ہاں واقعی سیاستدانوں کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے مگر یہ پختہ کار اور کہنہ مشق سیاستدانوں کا وطیرہ ہے، کہ ان کے بارے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا یہ تو کھلا تضاد ہے، کھلا تضاد ناپختہ کاروں کا زادِ راہ ہے، پرانے سفید بالوں یا بے بال کے سیاستدانوں کا تضاد تو پکڑا ہی نہیں جا سکتا، اقبال نے بھی کہا تھا؎
بڑی مشکل سے آخر یہ شاہیں زیر دام آیا
عمران خان اگر دھرنے نہ دیتے، پاناما کا رولا نہ ڈالتے، گالیاں دے کے معافی نہ مانگتے تو وہ عوام کے چاہے آنکھ کے تارے نہ ہوتے ارباب سیاست و حکومت کے ضرور راج دلارے ہوتے، اور الیکشن کمیشن واحد ادارہ ہے جس نے خان سے معافی منگوا کے چھوڑی، چیف الیکشن کمشنر نے اپنے وقت کے ایک اتھرے لیڈر سے دو بار معافی منگوا لی یہ ایک ادارے کی بہت بڑی صلاحیت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭٭
جعلی اور اصل کپتان
کیپٹن (ر) صفدر نے کہا ہے:عمران جعلی میں اصل کپتان، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی زمانے میں کیپٹن (ر) اصل فوجی کپتان اور عمران خان اصل کرکٹ کپتان تھے، مگر اب یہ دونوں ریٹائرڈ ہیں، اور سیاسی ریٹائرنگ روم میں آرام فرما ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ہماری سیاست میں سیاستدانوں کا ذخیرہ الفاظ و دلائل ختم ہو چکا اور اب وہ آئیں بائیں شائیں فرما رہے ہیں، ڈکشنریاں ختم ہو گئیں لیکن تنازعات کسی آخری موڑ تک نہیں پہنچے، شاید سبھی سیاستدان پہنچے ہوئے ہیں مگر حکمران سیاستدانوں سے ’’تھلے ہی تھلے‘‘۔ کیپٹن (ر) صفدر عاشق رسول ﷺ ہیں انہوں نے اسمبلی کے اندر باہر جو تقریر کی اسے سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ یہ بھلے فوج کے ریٹائرڈ کیپٹن ہی سہی مگر یہ دراصل قافلہ ٔ عشاق رسول ﷺ کے بھی کپتان نکلے۔ اب ان کو سارے بندھن توڑ کر لبیک یا رسول اللہ ﷺ جوائن کر لینی چاہئے۔ مریم جیسی جی دار خاتون ان کی اہلیہ ہیں، پھر انہیں خود کو فوج کا ریٹائرڈ کپتان ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے، ہمیں برمحل اشعار کی ایک بڑی تعداد یاد ہے، مگر کچھ عرصہ ہوا ہم نے شیروں کی دھاڑیں سن سن کر سوچا کہ؎
شیروں کی بولیاں اتنی سنیں ہم نے
کہ شعروں کے حوالے چھوڑ دیئے ہم نے
اب خود شعر بناتے ہیں چل گئے تو ٹھیک ورنہ طلال دانیال تو کہیں گئے نہیں ان سے پوری مثنوی سحر البیان سن لیں گے، کپٹن (ر) صفدر اگر اب بھی فوج میں ہوتے تو کم از کم میجر جنرل ہوتے، اور ان کے نام کے ساتھ (ر) نہ لکھنا پڑتا مگر انہوں نے شاید زیادہ بہتر فیصلہ کیا، کیونکہ ایک ہی وقت میں 2تمغے تو نہیں لگا کرتے البتہ وقفہ ضروری ہے، اس وقت سیاست احتساب میں داخل ہو چکی ہے، اور احتساب حساب کتاب میں نئے چیئرمین نے نیب کو بے عیب بنانے کا کام شروع کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ صحن چمن میں شاخ پر بیٹھی عندلیب جمہوریت خوشی کے نغمے گا رہی ہے۔
٭٭٭٭
واضح کشمیر پالیسی ناگزیر
….Oرائے حسن نواز:عدلیہ مریم نواز کے بیانات کا نوٹس لے۔
عدلیہ نے جو نوٹس لے لیا اس کے پائوں میں سب نوٹس!
….Oفیملی جج بشریٰ خالد کی اداکارہ میرا کے نکاح کا کیس سننے سے معذرت،
میرا کا رعب ہی اتنا ہے کہ اس کا نکاح کیس کون سنے گا ؟
….Oلیاقت بلوچ:پاکستان مسئلہ کشمیر پر واضح پالیسی بنائے،
غیر واضح پالیسی دونوں ملکوں کے حکمرانوں سیاستدانوں کے بہترین مفاد میں ہے پھر اس مسئلے کو حل کر کے ساری سیاسی حکومتی رونقیں ختم کر دی جائیں یہ رونق یونہی لگی رہے گی، تاآنکہ تاریخ خود کو دہرا دے گی۔
٭٭٭٭

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے