وفاق المدارس کی گرتی ہوئی ساکھ!!

پاکستان میں دینی مدارس کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے دیوبند مسلک کے تحت قائم کم و بیش 25000 دینی مدارس کا الحاق وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہویا جدید اصلاحات کی ضرورت ہو تو نظریں ہمیشہ وفاق المدارس پر ہی ہوتی ہیں، اس حوالے حکومت پاکستان اور وفاق المدارس کے مابین کئی بار مشاورت رہی کہ کس طرح مدارس کو مین اسٹریم پر لایا جائے، کس طرح ان میں جدید اصلاحات کی جائیں کہ ان کی تعلیمی اسناد کو یونیورسٹی کی اسناد کے مساوی کیا جائے تاکہ طلباء دینی مدارس سند فراغت کے بعد ایک اچھے مستقبل کی جانب سفر کرسکیں۔

مگر یہاں المیہ یہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ گزشتہ کئی عرصہ سے خودآپسی جنگ کا شکار ہے، جس کی ایک تو سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وفاق کبھی اپنے آپ کو غیر سیاسی نہیں کرپایا، جبکہ خود وفاق اپنے دستور میں کہتا ہے کہ اس بورڈ کو سیاست سے پاک رکھا جائے گا مگر اس کے باوجود وفاق کے تعلیمی اجلاسوں میں جمعیت علماء اسلام کے لیڈروں کی بھرمار نظرآئے گی۔

مولانا سلیم اللہ خان کے انتقال کے بعدسے جمعیت علماء اسلام کی جانب سے وفاق پر اجارہ داری جنگ شروع کی جاچکی ہے،جس کا کھل کر اظہارجمعیت کی جانب سے وفاق کے 5 اکتوبر 2017کے اجلاس میں کیا جا چکاہے، اس اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا عطاءالرحمن، ناصر سومرو، قاری عثمان سمیت کئی سیاسی لوگ گھس بیٹھے اور پھر جو انہوں نے اس اجلاس میں ہلڑ بازی کی کہ وفاق اپنے بہت سے تعلیمی اہم فیصلے بھی نہ کرسکا۔

بہرکیف یہ تو ایک الگ مسئلہ ہے ، دوسرا مسئلہ یہاں صدروفاق المدارس کی تعیناتی کا تھا، مولانا سلیم اللہ خان کے انتقال کے بعد سے امید کی جارہی تھی کہ وفاق کے صدر کے لئے شاید کسی ایسی شخصیت کا تقرر کیا جائے گاجو کہ موجودہ حالات سے مکمل واقفیت کے ساتھ ساتھ صحت اور عمر کے لحاظ سے بھی اس قابل ہونگے کے وہ وفاق کو تعلیمی میدان میں مزید بہتر اور جدید اصلاحات کے لئے اپنی صلاحیت کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لا سکیں گے، جس کے لئے مدارس کے نوجوان علماء کی جانب سے بہت سے نام پیش کئے جارہے تھے،جن میں مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی،مولانا زاہدالراشدی یا پھر مفتی عبدالرحیم جیسی شخصیت سے نوجوان امید وابستہ کیے بیٹھے تھے۔ مگر 5 اکتوبر 2017ء کو لاہور میں ہونے والے اجلاس میں بالآخر وہی پرانی روایات کے مطابق فیصلہ کیا گیا کہ صدر وفاق المدارس کے لئے تقرر ڈاکٹرعبد الرزاق اسکندر صاحب کا کردیا گیا، ڈاکٹرعبد الرزاق اسکندر صاحب انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں . ان اک بھر پور احترام بھی موجود ہے لیکن ڈاکٹر صاحب جو کہ اپنی عمر اور صحت کے حوالے اس اسٹیج پر ہیں کہ وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں، ایسے میں انہیں صدر بنانا انتہائی حیران کن تھا،جس سے صاف واضح تھا کہ وفاق اپنے نظام کو بہتر کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں، جبکہ نائب صدر کا تقرر مفتی رفیع عثمانی صاحب کا کیا گیا۔

وفاق المدارس العربیہ کی جانب سے پانچ اکتوبر کو جاری ہونے والے خط کا عکس

یہاں ایک اور انتہائی ایک اور حیران کن عمل دیکھئے کہ 5 اکتوبر کے اجلاس میں علیل و بزرگ شخصیت ڈاکٹر عبد الرزاق کو صدر بنایا گیا جبکہ دوسرے دن ہی 6 اکتوبر 2017 کو ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی جانب سے ایک خط مولانا حنیف جالندھری ، صوبائی ناظمین و اراکین مجلس عاملہ کو بھیجا گیا کہ ( وفاق المدارس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے میری صحت کے عوارض کی بناء پر میں اپنے برخوردار مولانا ڈاکٹر سعید خان کو اپنا معاون خصوصی مقرر کرتا ہں مجھ سے متعلق امور پر موصوف سے رابطہ کیا جائے)

وفاق المدارس العربیہ کے نو منتخب صدر کی جانب سے منتخب ہونے کے اگلے روز 6 اکتوبر کو جاری کئے گئے خط کا عکس

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جب سب کے علم میں تھا ہی کہ حضرت کی عمر اور صحت اس قابل ہی نہیں کہ انہیں کوئی ذمہ داری دی جائے مگر پھر بھی انہیں صدر بنایا گیا پھر انہی حضرت کی جانب سے دوسرے ہی روز اپنے برخوردار کو معاون مقرر کردیا گیا، حالانکہ وفاق کے دستور کے مطابق صدر کی غیر موجودگی میں نائب صدر ذمہ داری نبھائیں گے۔ اصولا تو ڈاکٹر عبد الرزاق صاحب کو یہ لکھنا چاہئے تھا کہ صحت کے عوارض کی بناء پر صدر کی ذمہ داریاں نائب صدر مفتی رفیع عثمانی صاحب نبھائیں گے مگر حضرت نے خود ہی دستور کے خلاف فیصلہ کرڈالا، جس سے آپ سمجھ چکے ہونگے اس وقت وفاق المدارس العربیہ کی خصوصی توجہ مدارس اصلاحات پر نہیں. جس کے لئے دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے برخوردار کو بٹھا دیا گیا۔

درحقیقت اس ساری سیاست کے پیچھے جمعیت علماء اسلام ہی ہے، جیساکہ بالائی تحریر میں سرسری سا جو میں نے ذکر کیا تھا کہ 5 اکتوبر 2017 کے اجلاس میں جمعیت کی جانب سے صدر کے تقرر کے خلاف جو ہلڑ بازی کی گئی وہ منصوبہ کے تحت کی گئی، جبھی فوری طور پر دوسرے ہی دن 6اکتوبر کو نئے تقرر کئے گئے صدر کی جانب نائب صدر مفتی رفیع عثمانی صاحب کو اہمیت دیئے بغیر اپنے برخوردار کو معاون مقرر کرکے ایک طریقے سے صدر ہی بنادیا گیا، جس سے جمعیت علماء اسلام کا مقصدر پورا ہوا۔

یہاں اب ذمہ داری نوجوانان مدارس کی ہے کہ وہ اب اس اجارہ داری اور سیاست کی نظر ہونے والے وفاق کو بچانے کے لئے کھڑے ہوں ، اگر یہ نوجوان آج کھڑے نا ہوسکے تو آپ مستقبل قریب میں دیکھ سکیں گے کہ مدارس کی اس نمائندہ تنظیم کا وجود بھی نہیں ہوگا، کیونکہ بڑے مدارس آہستہ آہستہ کسی نہ یونیورسٹیوں سے الحاق کربیٹھیں گیں ،جبکہ کچھ مدارس اپنے خودساختہ بورڈ بنا بیٹھیں جبکہ جو بچے کچے گاؤں دیہات کے دینی مدارس رہ جائیں وفاق المدارس فقط ان کی نمائندہ بن کے رہ جائے گی۔

[pullquote]ایڈیٹر نوٹ [/pullquote]

اس مضمون پر کوئی شخص اگر اپنے تاثرات کا اظہار کرنا چاہے تو ویب سائٹ اسے شائع کرنے کی پابند ہو گی . آپ آئی بی سی اردو کے میل ایڈریس پر جاکر ای میل کر سکتے ہیں . شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے