ولی کامل کی تلاش

دونوں میرے عزیز دوست ہیں، دونوں سے محبت کا تعلق ہے، ایک قدرے مذہبی رجحان رکھتا ہے دوسرا نسبتاً آزاد خیال ہے، پہلے کو تصوف سے لگائو ہے تو دوسرے کو دنیا کے جھمیلوں سے فرصت نہیں، ایک پنج وقتہ نمازی ہے تو دوسرا صرف جمعہ پڑھتا ہے، پہلے کے دو خوبصورت بیٹے ہیں جبکہ دوسرے کی ایک ہی بیٹی ہے۔ اِس بیٹی کی عمر چودہ سال ہے مگر کسی پیدائشی مسئلے کی وجہ سے وہ ذہنی اعتبار سے دو سال کی ہے، اس کی نشوو نما نہیں ہو پارہی۔ اللہ کی اللہ ہی جانے۔ دنیا میں اولاد سے بڑا کوئی سکھ نہیں اور اولاد سے بڑا کوئی دکھ بھی نہیں۔ اپنی بچی کی دیکھ بھال کے لئے ماں کئی برس سے عملاً گھر میں مقید ہے، دونوں میاں بیوی اکٹھے کہیں آ جا نہیں سکتے، کسی عزیز رشتہ دار سے نہیں مل سکتے، کہیں کھانا کھانے باہر نہیں جا سکتے، میرا دوست اپنے دفتر جاتا ہے مگر ہمہ وقت اُس کا دھیان گھر میں اٹکا رہتا ہے، بار بار فون کر کے پوچھتا ہے کہ سب ٹھیک ہے، دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے بھی اُس کا یہی حال ہوتا ہے، اسے مکمل احساس رہتا ہے کہ اُس کی آزادی کی قیمت اُس کی بیوی ادا کر رہی ہے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ملک بھر کے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے مایوس ہونے کے بعد بچی کے علاج کے لئے دونوں نے کہاں کہاں ماتھا ٹیکا، کس کس در پر دعا کی، اللہ سے کیسے رو رو کے بھیک مانگی، کوئی پیر، فقیر، بزرگ، ولی کامل، جوگی، صوفی، سائیں، بزرگ، نور والا، بابا، برگزیدہ بندہ اور اللہ لوگ ایسا نہیں تھا جس کی تلاش انہوں نے نہ کی ہو، انہیں جو ملا اُس نے جو کہا انہوں نے کیا مگر بے سود۔ ہر بندے نے انہیں نئی راہ دکھائی اور بتایا کہ جن لوگوں کے قصے آپ لوگ سنتے ہیں دراصل وہ دنیا دار لوگ ہیں جن کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں، وہ لوگ اِس راہ کو اپنے دنیاوی نفع کی خاطر بدنام کرتے ہیں جس سے روحانیت کا ایک غلط تصور عوام کے دلوں میں بیٹھ چکا ہے۔ یہ سب کچھ سمجھا کر انہیں ایک نئی روحانی شخصیت سے ملوایا جاتا اور ہمیشہ کی طرح پھر یہی دعوی سننے کو ملتا کہ یہ بزرگ پہنچے ہوئے ہیں، اصلی اور خالص روحانیت انہیں کے پاس ہے، دنیا داری سے انہیں کوئی شغف نہیں، اللہ کی مخلوق کی بھلائی چاہتے ہیں، آپ کی بچی ان شاء اللہ شفایاب ہوگی، بزرگوں نے دعا کردی ہے۔ یہ دعائیں مگر آج تک قبول نہیں ہوئیں۔ میرے دوست کا اب تصوف سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔
کل میرے اِن دونوں دوستوں کی آپس میں بحث ہوئی۔ روحانیت پسند دوست کا کہنا تھا کہ یہ قلبی واردات ہوتی ہے، اللہ جسے چاہے نواز دے، دنیا دار سیکولر لبرل لوگ جو ہر بات کو عقلی پیمانوں پر جانچتے ہیں کبھی اسے سمجھ ہی نہیں سکتے، اس کائنات میں کئی سربستہ راز ہیں اور ہر راز خدا نے انسان پر آشکار نہیں کیا، صرف اللہ والے جنہیں خدا نواز دیتا ہے ِان رازوں کو جان پاتے ہیں، اب اگر کسی شخص کے پاس وہ نور بصیرت ہی نہیں تو کیسے وہ روحانیت کو مانے گا، وہ تو اپنی کم عقلی کی بنا پر اس کا تمسخر ہی اڑائے گا، کسی بات کا اگر آپ کو تجربہ نہیں ہوا تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بات سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی، اپنی لاعلمی کی بنیاد پر کسی کو عالم نہ ماننا جہالت ہی کہلائے گی۔ بچی کے والد نے نہایت اطمینان سے یہ باتیں سنیں اور پھر اپنے دوست سے چند سوال کئے: ’’میری جان، ذرا تو یہ بتائو کہ کسی ولی کامل کو تلاش کرنے کا کیا طریقہ ہے، اُس کی کیا نشانی ہے، ہم دنیا دار اور گناہ گار سہی ہمیں یہ تو کوئی بتائے کہ جن کی روحانیت کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے اُس کو پرکھنے کا کیا طریقہ ہے، یا پھر یہ سوال اٹھانے کو بھی تمسخر اڑانا کہہ کر پرے پھینک دیا جائے گا، اگر میں یہ کہتا ہوں کہ روحانیت کا کچھ ثمر مجھے بھی مل جائے تو کیا محض یہ کہہ کر دھتکار دیا جائوں گا کہ تم تو سلوک کی راہ کے مسافر ہی نہیں، جائو یہاں سے، دنیا کے کتّے!‘‘ یہ کہتے ہوئے میرا دوست کچھ جذباتی ہو گیا۔ اب دوسرے دوست کی باری تھی: ’’دراصل بات یہ ہے کہ ہم اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے چکر میں اُن لوگوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو روحانیت کے دعوے دار تو ہوتے ہیں مگر حقیقت میں اُن کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اگر آپ کو آج تک کوئی روحانی شخصیت یا ولی کامل نہیں ملا تو اس کا مطلب ہے کہ خلوص نیت سے آپ نے کوشش ہی نہیں کی، اللہ کے بندے شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں اور نہ ہی نمود و نمائش کے قائل، انہیں تو ڈھونڈنا پڑتا ہے، خلق خدا کا بھلا چاہتے ہیں، دیدہ بینا رکھتے ہیں، اِن کی دعائوں میں تاثیر ہوتی ہے، یہی اِن کی نشانیاں ہیں، جو اِن کا قرب حاصل کر لیتا ہے، فیض پا لیتا ہے۔‘‘ دونوں دوستوں کی بحث کے دوران میں اب تک خاموش تھا، میں نے بیچ میں بولنا چاہا مگر بیٹی کے والد نے مجھے چُپ کروا دیا اور کہا: ’’اِس بات کا جواب میں دوں گا، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اپنی بیٹی کے علاج کے لئے میں نے ڈاکٹر، پیر فقیر، اللہ والے، بزرگ، صوفی یا روحانی شخصیت کی خلوص نیت سے تلاش ہی نہیں کی تو اِس بات پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے، اپنی واحد بیٹی کو صحت مند دیکھنے سے زیادہ میری زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں، اس کے باوجود اگر میری تلاش کو خلوص نیت کی کمی کہہ کر دلیل کے طور پر استعمال کرنا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ دوسری بات، یہ آپ مجھے بار بار دنیا دار ہونے کا طعنہ کیوں دے رہے ہیں، کیا اپنی بیٹی کے علاج کی خواہش کرنا دنیا داری ہے، یہ جن روحانی شخصیات کا آپ ذکر کرتے ہیں کہ یہ خلق خدا سے پیار کرتے ہیں تو کیا میں خدا کی مخلوق نہیں، میری بیٹی کی تندرستی کے لئے دعا کرنا کیا روحانی طور پر ناپسندیدہ فعل کہلائے گا، کیا اس بات پر اِن سے روحانیت کا درجہ واپس لے لیا جائے گا، اگر ایسا نہیں، اور آپ کا دعویٰ ہے کہ پیر کامل آپ کی دسترس میں ہیں، ان سے آپ فیض پاتے ہیں، خود آپ بھی اب تصوف کی راہ کے مسافر ہیں، تو خدارا کچھ فیض مجھے بھی دلوا دیں، ساری زندگی آپ کے مرشد کی غلامی میں گزار دوں گا، مجھے یقین ہے کہ میری اِس پر خلوص پیشکش کو آپ محض تمسخر اڑانا کہہ کر رد نہیں کریں گے۔‘‘ اس سے پہلے کہ میرا دوسرا دوست جواب دیتا، میں نے بحث یہ کہہ کر ختم کروا دی کہ چلو روٹی کھاتے ہیں۔
روحانیت کے دعوی دار حضرات کو اللہ خوش رکھے، اُن کے پاس نور بصیرت بھی ہے اور ولی کامل تک اُن کی پہنچ بھی، آنے والے زمانوں کی خبر بھی رکھتے ہیں اور ناممکن کام کو ممکن بنانے کا اختیار بھی اُن کے پاس ہے یا یوں کہیے کہ خدا سے دعا کرتے ہیں تو ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی سنی سنائی یا ہوائی باتیں نہیں، یہ لکھی پڑھی باتیں ہیں جو دعوؤں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان دعوؤں میں یقیناً کوئی سچائی بھی ہوگی کیونکہ یہ دعوے کرنے والے مجھ جیسے گناہ گار نہیں بلکہ نیک طبیعت لوگ ہیں، اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں، اخلاص و تقویٰ کا درس دیتے ہیں، ان خوبصورت باتوں سے بھلا کس کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کے اِن نیک بندوں سے استدعا ہے کہ اگر اِن کی دسترس میں واقعی وہ سب کچھ ہے جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں تو ایک کرامت میرے اِس دوست کے لئے بھی دکھا دیں، اُس کا دکھ ناقابل بیان ہے۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم آپ کے دعوؤں پر سوال اٹھانے کو ’’تمسخر اڑانا‘‘ کہہ کر رد نہ کریں، اِن کا تسلی بخش جواب دیں جو عام ذہن میں سما سکے کیونکہ ہر کسی کو خدا نے آپ جیسی بصیرت عطا نہیں کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے