روس، ترکی اور ایران شام کے سیاسی حل کے لیے متحد

روس، ترکی اور ایران کے سربراہان نے گزشتہ روز ملاقات کی اور شام میں عسکریت پسند گروپ داعش کی ممکنہ شکست کے بعد شام کے سیاسی حل پر تبادلہ خیال کیا۔

دوسری جانب سعودی عرب میں شام کے اپوزیشن گروہوں کا اجلاس بھی ہوا، جس میں شام کے امن کے حوالے سے ایسا اتحاد بنانے پر گفتگو ہوئی جو جنیوا مذاکرات پر بات چیت کرسکے۔

ریاض میں ہونے والے اجلاس میں تقریباً 30 اپوزیشن گروپوں کے وفد میں شرکت کی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی ) کی رپورٹ کے مطابق سوچی کے روسی بلیک سی ریزورٹ میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ترک اور ایرانی ہم منصب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام میں عسکریت پسندوں کو فیصلہ کن دھچکا ملا ہے اور یہی حقیقی موقع ہے کہ کئی سالوں سے جاری جنگ کو ختم کیا جاسکے۔

روسی صدر نے کہا کہ سیاسی حل کے لیے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت سمیت تمام اطراف سے مراعات ملنی چاہیں۔

روسی حکام کے مطابق شامی صدر بشارالاسد نے رواں ہفتے پیر کی رات کو روس کا اچانک دورہ کیا جس کا مقصد بدھ کے روز سوچی میں ہونے والی تینوں سربراہان کی ملاقات کی بنیاد رکھنا تھا۔

سہ فریقی مذاکرات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے روس کے صدر نے کہا کہ شامی سربراہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئینی اصلاحات کو منظم کریں گے اور اقوام متحدہ کی نگرانی کے تحت نئے انتخابات منعقد کرائیں گے۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن، ایرانی صدر حسن روحانی اور ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا کہ شام کی تمام جماعتوں کو تنازعات ختم کرنے کے لیے قیدیوں، یرغمالیوں اور لاشوں کو حوالے کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ایسے افراد کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو مستقل جنگ بندی اور سیاسی مذاکرات شروع کرنے میں مدد کرسکیں۔

طیب اردوگان نے کہا کہ ہم ایک جامع، آزاد، منصفانہ اور شفاف سیاسی عمل کی تبدیلی پر متفق ہوئے ہیں جو شام کی قیادت اورعوام کی ملکیت کے تحت کی جائے گی۔

واضح رہے کہ مارچ 2011 سے شروع ہونے والے شامی تنازع میں بشارالاسد کی حکومت کو روس اور ایران کی حمایت حاصل تھی۔

دوسری جانب شام میں اقوام متحدہ کے سفیر اسٹیفن ڈی مستورا نے ریاض میں تین روزہ شامی اپوزیشن کے اجلاس کے آغاز پر کہا کہ بہت سے اپوزیشن گروہوں کو امید ہے کہ وہ 28 نومبر کوجنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں ایک متحد وفد کے ساتھ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ دسمبر میں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے دو دور ہوں گے۔

اسٹیفن ڈی مستورا نے کہا کہ یہ ہمارے عام مفاد کی بات ہے کہ آپ اپنے درمیان سب سے بہتر اور سب سے زیادہ جامع ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں۔

تاہم ریاض میں ہونے والا اجلاس پہلے ہی اختلاف رائے کا شکار ہوگیا جبکہ بکھری ہوئی اپوزیشن موجودہ شامی صدر بشار الاسد کے مستقبل کے کردار, ان کے عبوری دورِ حکومت اور آئین، جو ملک کو آئندہ انتخابات کی جانب لے کر جائیں گے، کے حوالے سے تقسیم کا شکار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے