خادم رضوی کا دھرنا,ہدف کیا ؟

دین محمدی ﷺپر نہیں یہ امت محمدﷺ پر کڑا وقت ہے ، اس سے براوقت امت پر اور کیا ہوگا کہ دنیاوی جا ہ حشم اور اقتدار کے حصول کے لئے رسول رحمت ﷺ کا نام بیچا جائے ۔جس بوریا نشین نے ساری عمر محفل میں نمایاں نشست پر بیٹھنا گوارا نہ کیا اس کے دین کو ”تخت“ پرلانے کی باتیں ہور ہی ہیں ۔جس کی حیا کی کوئی مثال کائنات میں نہیں،کبر میں ڈوبے اس کی محبت کے جھوٹے دعویدار،اپنے مخالفین کو برسر عام گالیاں بکتے ہیں اوراپنے اس فعل شنیع کی تاویل کے لئے نبی رحمت ﷺکے سرفروش صحابہؓ پر تہمت دراز کرتے ہیں ۔ اس نبی ﷺ کے صحابہ ؓ پر جنہوں نے فرمایا اپنے ماں باپ کو گالی مت دو۔ جان نچھاور کرنے والے صحابہ ؓ ششدر رہ گئے ،عرض کیا اللہ کے رسول ﷺکون بدبخت ہوگا جو اپنے ماں باپ کو گالی دے ۔ فرمایا کسی کے ماں باپ کو گالی دو گے تو وہ تمہارے ماںباپ پر لوٹ آئے گی۔

راولپنڈی اسلام آباد کے مکینوں نے سکھ کا سانس لیا کہ تین ہفتے تک ایک آزاد ملک کے دارالحکومت میں مقبوضہ علاقے کے شہری کا مفت مزہ لینے کے بعد ان کو رہائی نصیب ہوئی ۔ لیکن مولوی خاد م رضوی کے دھرنے سے یہ رہائی ہر گز خوشگوار یادیں چھوڑ کر نہیں گئی، دھرنے کے خاتمے کے لیے ہونے والا معاہدہ آئین ،قانون اور اخلاقیات کے کسی بھی حوالے سے دیکھا جائے قابل تعریف نہیں ۔

بعض لوگ عسکری قیادت کے کردار کی تعریف کر رہے ہیں لیکن یہ تعریف اس حد تک روا ہے کہ معاملہ کسی بڑے خون خرابے یا تشدد کے بغیر نمٹا دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت بری مثالیں بھی قائم ہوئی ہیں ۔ڈی جی رینجرز پنجاب کو ذمہ داری یہ دی گئی تھی کہ وہ دھرنے کو ایک ہفتے میں منتشرکریں ،راتوں رات انہوں نے ہزار ہزار کے نوٹوں کے بنڈل مہیا کئے ، پاک فوج کے اعلیٰ افسر نے مولوی خادم رضوی سے نیازمندانہ مصافحہ کیااورفرما یا ”کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں“ ؟۔

بصد احترام عرض ہے کہ آپ پاکستان کی انتظامیہ کا حصہ ہیں،آپ کو ریاست کے ساتھ ہونا ہے اور ریاست کی نمائندگی اس ملک کے عوام کے منتخب نمائندے کرتے ہیں نہ کہ پولیس پر جدید ترین آنسو گیس کے شیل برسانے والے مسلح جتھے ۔ افراد کی حیثیت افکار کی بدولت طے ہوتی ہے اور تاریخ کے اوراق میں وہی زندہ رہتا ہے جو سوچ سمجھ کر ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے حال میں ایسے فیصلے کرے جو مستقبل میں تعمیری اثرات کے حامل ہوں ،وقتی توصیف نورتنوں کے تماشے کے سواکچھ نہیں ۔

میجر جنرل فیض حمید کی ”بوساطت “ طے ہوئے معاہدے کے الفاظ اپنے ضامن کا برملا اظہار کرتے ہیں جس میں ریاست اور ریاست کی عملداری کو ڈنڈے کے زور پر چیلنج کرنے والوں کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا گیا۔ پاکستان کے دستور میں ملکی معاملات میں فیصلوں کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو دیا گیا ہے ۔ دستور سے انحراف کرتے ہوئے لیکن یہ بات اب طے کر دی گئی ہے کہ جو کوئی بھی چند ہزار افراد جمع کر کے دارالحکومت کی چار سڑکوں پر قبضہ کر لے گا وہی فاتح زمانہ ۔یہ بھی طے ہوا کہ 25نومبر کو دھرنے پر ہونے والے ایکشن کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ،یعنی حکومت خود اپنے ہی خلاف کارروائی کرے گی کہ اس نے جڑواں شہروں کے باسیوں کو خادم رضوی سے بازیاب کرانے کی جسارت کیوں کی ۔

کمال تویہ بھی ہوا کہ معاہدے کی روسے دھرنے کے شرکا نے سرکاری املاک کا جو بھی نقصان کیا وہ سرکار خود پورا کرے گی یعنی مملکت خداد اد پاکستان میں آج کے بعد چوراور ڈاکو یہ ضمانت حاصل کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان کی کسی بھی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو آپ بقلم خود پورا کریں گے ۔اس نادر روزگار معاہدے نے پہلا بچہ لاہور کے مال روڈ پر جنا ہے جہاں اسی طرح کا ایک اور جتھہ براجمان ہوچکا ہے۔خادم رضوی اور افضل قادری کے ساتھ اشرف آصف جلالی کے درمیان لڑائی کی بنیاد ختم نبوت ﷺنہیں ،ذاتی اقتدار کی ہوس ہے ۔

ہر دور میں وزارت سے سرفراز ہونے والے زاہد حامدکی سیاست کا یہ خاکسار کبھی معترف نہیں رہا لیکن ہر گز وہ ختم نبوت ﷺکا منکر نہیں ،دقّت مگر یہ ہے کہ اس کے ایمان پر کوئی ملّا مہر لگانے کو تیار نہیں۔کلمہ گو مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے والے ملّا عبداللہ بن ابی کے جنازے کا احوال امت کو کیوں نہیں بتاتے ؟اس لئے کہ ان کا ایجنڈا ذاتی اقتدار ہے بھلے اس کی قیمت امت کے انتشار سے دینی پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری کی پوری پارلیمنٹ اس جرم (اگر یہ جرم ہے)میں شریک ہے ۔ حقیقت مگر اس کے برعکس ہے،بیرسٹر بابر ستار اپنے ایک کالم میں وضاحت کے ساتھ اس معاملے کو بیان کر چکے ہیں کہ دستور پاکستان میں انیس سو چوہتر میں ہونے والی دوسری ترمیم میں نہ صرف مسلمان کی تعریف بیان کر دی گئی ہے بلکہ وضاحت کے ساتھ قادیانی ،احمدی ،مرزائی یا لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے ۔

انتخابی اصلاحات میں حلف نامے کے الفاظ میں تبدیلی سے نہ تو قادیانیوں کی حیثیت تبدیل ہوسکتی ہے اور نہ ہی دستور پاکستان میں ان کی شناخت ۔ لیکن بہرحال اب یہ تبدیلی بھی ختم کر کے اس مردہ قانون کو بھی جو دس دن کے لئے ایک آمر نے نافذکیا تھا ایک بار پھر بحال کر دیا گیا ہے لیکن دین کے کچھ ٹھیکیدار ایسے ہیں کہ ان کی تشفی ممکن نہیں ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ مفتی منیب الرحمان اور بعض انتہائی قابل احترام خانقاہوں کے سجادہ نشینوں نے بھی ایک ایسے شخص کے مطالبات کی حمایت کی جس کی زبان سے کوئی دوسرا محفوظ نہ رہا ۔ووٹ کی ہوس انسان کو کیسے اندھا کرتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ روشن خیالی کا ثبوت دینے کے لئے اپنی ہر دوسری تحریر میںحسرت بھرے انداز میں دخترانگورکا ذکر کرنے والے سیاستدان دانشور کو بھی خادم رضوی کی زبان میں چاشنی محسوس ہورہی ہے ۔ادنیٰ ذاتی مفادات کے اسیر یہ لوگ بھول گئے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ ہوں “۔

جھوٹ کہتے ہیں احسن اقبال کہ معاہدے کی کچھ شقیں حکومت کی طرف سے تھیں، حکومت کی طرف سے معاہدے میں تحریر کئے جانے والے ایک بھی لفظ کی نشاندہی وہ نہیں کر سکتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ تین ہفتے پر محیط اس دھرنے نے ان کی انتظامی صلاحیتوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ۔یہ بات اب راز نہیں کہ اس نا اہلی پر میاں نواز شریف نے ان کو سخت سست کہا ہے لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ دھرنے کے شرکا ءکو لاہور سے اسلام آباد پہنچنے تک کسی نے انہیں روکنے کے لئے مذاکرات یا انتظامی ایکشن کے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔ بحیثیت قوم یہ ہمار ا وتیر ہ بن چکا ہے کہ پانی سر سے گزرنے لگے تو ہم ہاتھ پاوں مارنے لگتے ہیں اور ظاہر ہے ایسی صورت میں ڈوبنا ہی مقدر ہوتا ہے ۔ دو ہزار چودہ میں تحریک انصاف کے دھرنے کو ریاست اگر حکمت کے ساتھ طاقت کے ذریعے ناکام بناتی تودوسرے دھرنے کے بارے میں کسی کو سوچنے کی ہمت بھی نہ ہوتی لیکن پارلیمنٹ ہاوس،وزیراعظم ہاوس اور پی ٹی وی پر حملہ ہو ا تو کسی کے کان پر جو ں تک نہ رینگی ۔

دوہزار چودہ میں دھرنے کے ہنگام جب وزیراعظم میاں نواز شریف کی تائید کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور طاہرالقادری کو جی ایچ کیو طلب کیا تھا تو پیپلزپارٹی اس پر احتجاج میں حق بجانب تھی کہ فوج کو سیاست میں دخل در معقولات نہیں کرنا چاہیے لیکن آج جب مسلم لیگ ن پر برا وقت ہے اور اس کی کمزورحکومت کی بدولت ریاست ایک ہجوم کے سامنے اوندھے منہ لیٹ گئی ہے تو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف جو مذکورہ قانون کی تیاری میں پوری طرح شامل رہیں حکومت کا تماشہ دیکھتی رہیں ۔ الفاظ چبا چبا کر قانون اور اخلاق کی دہائی دینے والا تین تین درباروں کا سجادہ نشین تو اس سے دو قدم آگے نکلا اور اس جتھے کا حامی بن گیا۔

اللہ کے فضل سے اگلا مطالبہ یہ ہے کہ قوم کے بچوں کو پڑھایا جانے والا نصاب خادم رضوی کی مرضی سے ترتیب دیا جائے ۔ ایک نصاب امیر المجاہدین ضیا ءالحق نے دیوبندی مدارس میں نافذکیا تھا جس کے نتیجے میں آج بھی انسان بارود بن کر پھٹ رہے ہیں ۔ اورایک نصاب امیر المجاہدین خادم رضوی پاکستان کے اکثریتی بریلوی مسلک کو پڑھانا چاہتاہے ،اس نصاب کا نتیجہ کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
ریاست بری طرح ناکام ہوئی اوردنیا ہمار ا تماشہ دیکھ رہی ہے ۔ عالمی جریدے نیوز ویک نے سرخی جمائی ہے کہ دنیا کاخطرناک ترین ملک عراق نہیں پاکستان ہے ۔ سقراط ،ارسطو، افلاطون ،چانکیہ ،روسو،لینن اورماوزے تنگ سمیت سیاسیات کے تمام دانش وروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں انسانوں کی آبادی پر جب تک کوئی حکومت اپنا اختیار منوا نہیں لیتی ریاست کا ادارہ مکمل نہیں ہوتا ۔ لیکن یہاں تو چند ہزار کا ایک جتھہ پوری ریاست کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منوا کر چلتا بنا لیکن تین ہفتے تک غلاموں کی طرح محصور رہنے والے لاکھوں شہریوں سمیت کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔

میں سوچ رہا ہوں کہ اکیسویں صدی میں جب چین ہمارے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملا کہ ہمیں دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کے ساتھ جو ڑ کر ہمیں ترقی و خوشحالی کے زینے پر ڈالنا چاہتا ہے توہمار ا حال یہ ہے کہ ہم ایک مولوی کی گالیوں پر سبحان اللہ اور ماشااللہ کے نعرے بلند کر رہے ہیں ۔اللہ ہماری آنے والی نسلوں کی حفاظت فرمائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے