ایران میں حکومتی ردِعمل پر دنیا کی نظر ہے:امریکہ

امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران میں جاری مظاہروں کے حوالے سے حکومتی ردِعمل پر دنیا بھر کی نظر ہے۔ صدر ٹرمپ کی پریس سیکرٹری سارہ ہکابی سینڈرز نے دعویٰ کیا کہ ایرانی عوام حکومت کی بدعنوانی سے تنگ آ چکے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے عوام ‘حکومت کی بدعنوانی اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے لیے ملکی دولت کی فضول خرچی سے تنگ آ گئے ہیں۔’

اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد مظاہرے میں شرکت کر رہے ہیں۔

دریں اثنا حکام نے حکومت کے حامیوں سے سنیچر کے روز ملک گیر پیمانے پر حکومت کی حمایت میں جلوس نکالنے کے لیے کہا ہے۔

یہ سنہ 2009 میں محمود احمدی نژاد کی قدامت پسند حکومت کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔

اس وقت اصلاح پسندوں نے متنازع انتخابات کے خلاف مظاہرے کیے تھے جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ حکومت میں آئے تھے۔

ایران میں جمعرات سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اب ملک کے دیگر بڑے شہروں تک پھیل گئے ہیں۔

[pullquote]مظاہرین کے اعتراضات[/pullquote]

مظاہروں کا آغاز بدعنوانی اور اقتصادی صورتحال کے حوالے سے ہوا تھا تاہم اب یہ احتجاج سیاسی نوعیت اختیار کر گیا ہے
صدر روحانی ہی نہیں آیت اللہ خامنئی اور موجودہ نظامِ حکومت کے خلاف بھی نعرے بازی کی گئی ہے.

اطلاعات کے مطابق ایسے نعرے بھی لگائے گئے ہیں ’لوگ بھوکے ہیں اور مولوی خدا بنے ہوئے ہیں۔‘

ان مظاہروں میں ایران کی خارجہ پالیسی جیسے کہ لبنان اور غزہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف بھی جذبات کا اظہار کیا گیا ہے.

حکومت نواز مظاہرے میں ہزاروں لوگوں کو بس سے دارالحکومت تہران لایا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرس نے ٹوئٹر پر کہا: ‘ایرانی حکومت اپنے عوام کے حقوق بشمول ان کے اظہار کی آزادی کا احترام کرے۔ دنیا کی ان پر نظر ہے۔’

اس کے بعد یہ ٹویٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی نظر آيا۔ امریکی وزارت خارجہ نے تمام ممالک کو ‘ایرانی عوام کے بنیادی حقوق اور بدعنوانی کے خاتمے کے مطالبے’ کی کھلے عام حمایت کی اپیل کی ہے۔

سرکاری نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے مطابق پہلے نائب صدر اسحاق جہانگیری نے کہا ہے کہ ان مظاہروں کے پس پشت حکومت مخالف ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘ان دنوں معاشی مسائل کے بہانے کچھ واقعات ملک میں رونما ہو رہے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پس پشت کچھ اور ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ حکومت کو نقصان پہنچائیں گے لیکن اس کا فائدہ دوسرے اٹھا لیں گے۔’

اطلاعات کے مطابق شمال میں راشت اور مغرب میں کرمانشاہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ شیراز، اصفہان اور ہمدان میں مظاہرین کی تعداد کم ہے۔

یہ احتجاج شروع تو بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف ہوئے لیکن بعد میں یہ بڑھ کر عالم دین کی حکومت پر کیے جانے لگے۔
ایران کے دارالحکومت تہران میں چند افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

ایران کی لیبر نیوز ایجنسی کو بتاتے ہوئے تہران کے سکیورٹی افیئرز کے نائب گورنر جنرل نے کہا کہ یہ لوگ ان 50 افراد میں شامل تھے جو شہر کے مرکزی مقام پر جمع ہوئے۔

گورنر جنرل نے اس سے قبل کہا تھا کہ اس طرح کہ کسی بھی اجتماع سے پولیس کے ذریعے نمٹا جائے گا۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے2009 میں ہونے والے احتجاج کے بعد سب سے زیادہ شدید احتجاج ہیں اور اس کے ذریعے عوامی بے چینی نظر آ رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے غیرقانونی اجتماع کے خلاف وارننگ جاری ہونے کے باوجود ملک بھر سے سوشل میڈیا پر احتجاج کی کالز دی جا رہی ہیں۔

جبکہ جمعے کو ہونے والے احتجاج کی ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں ان میں سکیورٹی فورسز اور بعض مظاہرین کے درمیان کرمانشاہ میں ہونے والی جھڑپیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ان مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر حسن روحانی کی حکومت بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی اور صرف ایک ہی ہفتے میں انڈوں کی قیمتیں دوگنا بڑھ گئیں۔

تاہم بعض مظاہروں کا دائرہ کار بڑھ کر حکومت مخالف احتجاج تک پھیل گیا، اور سیاسی قیدیوں کی رہائی اور پولیس کی جانب سے مار پیٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

اس دوران مشہد میں ’نہ لبنان، نہ غزہ، میری زندگی ایران کے لیے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔ اس حوالے سے مظاہرین کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی تمام تر توجہ ملکی مسائل کی بجائے خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’مشہد میں اس لیے گرفتاریاں عمل میں آئیں کیونکہ وہ سخت نعرے بازی کر رہے تھے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے