ریاست جموںوکشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری وسیع پیمانے پر جاری سرکاری جبروتشدد اور قتل و غارتگری اور اسکی مزاحمت میں چلنے والی عسکری اور پرامن دونوں اقسام کی عوامی جدوجہد کا اثر ہر شعبہ زندگی پر پڑاہے مگر یہ بات نہایت ہی حیران کن ہےکہ کشمیری ادیبوں کی بڑی تعداد نے اپنے گردوپیش کے حالات کو یکسر نظرانداز کر لیا ہے . یہی وجہ ہے کہ اکثر شعرااور ادیب خون آشام حالات کے بارے میں یا تو آنکھیں موندے ہوئے ہیں یا وزن شعر کیلئے کبھی کبھار ذو معنی الفاظ میں تک بندی کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کے روح فرسا حالات سےکشمیری ادیبوں کی اس درجہ بے اعتنائی کیوجہ شاید ان لکھاریوں کی بڑی تعداد کا سرکاری مشاعروں اور ریڈیو اور ٹی وی سے حاصل ہونیوالی آمدنی پر انحصار ہے،یا یہ ادیب سرکاری ایوارڈ اور انعام کے حصول کی خاطر اپنی نگارشات کو سرکاری بیانیے کے مطابق ڈھالتے ہیں،ایسی صورتحال میں ان ادیبوں سے عوامی احساسات کی ترجمانی کی امید رکھنا کشمیری ضرب المثل کے مصداق ’’بید کے درخت سے ناشپاتی مانگنے‘‘ کے مترادف ہے۔
گزشتہ ستر سالوں کے پر آشوب دور میں اگرچہ کشمیری اور اردو میں شاعری، نثر، افسانوی ادب اور تحقیقی مضامین کی سینکڑوں کتابیں منظر عام پر آئیں مگر ان میں چند ہی ایسی ہیں جو عوامی جذبات کی ترجمانی کرتی ہوں، ورنہ ادیبان وقت نے سرکاری امداد اور توصیفی اسناد کی خواہش میں جو کچھ بھی تخلیق کیا ہے اس کو ’’سرکاری ادب‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے، بقول کشمیری ادیب اور نقاد یوسف جہانگیر :’’جب ہم کشمیر کے ادبی سرمائے کی چھان بین کرتے ہیں تو ہمیں خال خال ہی کوئی ایسا ادیب یا شاعر نظر آتا ہے جسکے دل و دماغ کو قتل و غارتگری اور ظلم و جبر نے جھنجوڈا ہو کہ اسکے قلم سے سیاہی کے بدلے خون ٹپکا ہو‘‘۔ان حالات میں مرحوم پروفیسر غلام محمّد شاد کا نام قابل ذکر ہے جنھوں نے پوری زندگی مزاحمتی ادب کی تشکیل کی،آپ نے اپنی تیس سے زیادہ مطبوعات جن میں لگ بھگ ایک درجن کے قریب شعری مجموعے ہیں کشمیریوں کے احساسات اور جذبات کی کھل کر ترجمانی کی،اگرچہ آپ بنیادی طور پر کشمیری اور فارسی کے شاعر ہیں مگر اردو میں آپکے تین شعری مجموعے – لوح ضمیر، یادوں کے سلگتے لمحے اور شورش عہد جنوں میں آپ بار بار کشمیر کی سیاسی صورتحال اور اس سے پیدا ہونے والے عصری سماجی مسائل کا نوحہ پڑھتے نظر آ رہے ہیں،کشمیر کے بھارت کیساتھ الحاق کو آپ نے بار بار موضوع بنایا ہے
اجڑتا جا رہا ہے کاشمر آہستہ آہستہ
بنی جاتی ہے ہر بستی کھنڈر آہستہ آہستہ
جواں فرزند، دختر، بوڑھے غائب ہوتے جاتے ہیں
ملے الحاق کے کیا کیا ثمر آہستہ آہستہ
……….
اس رشتہ الحاق کی تعریف کیا کریں
ہے اسکی ابتدا بھی غلط، انتہا غلط
ہم نے دلائی یاد جب ایفائے عہد کی
ہر بار جو جواب ملا ہے، ملا غلط
……….
تب سے ہر سال ہم قتل ہوتے رہے
خوں سے ہی زخم الحاق دھوتے رہے
چیز غاصب کو جو خوش لگی، لوٹ لی
پاسداران قانون سوتے رہے
اسی طرح بھارت کیساتھ الحاق سے جڑی ’’جمہوریت‘‘ اور کشمیریوں کیلئے اس کی ’’برکات‘‘ شاد صاحب کا موضوع سخن رہی ہے،
جشن جمہور منانے آئے
پھر نئے جال بچھانے آئے
……….
جمہوریت بھی کس طرح کی ھم کو ملی شاد
تاریخ جس کی جبر و دار وگیر نے لکھ دی
……….
گیروا اس کا تو لبادہ ہے
وہ نہ سادھو ہے اور نہ سادہ ہے
قتل و غارت میں خوب ماہر ہے
نام جمہوریت نہادہ ہے
……….
بڑی جمہوریت چندر مکھی ہے
پر اس کے دل میں بے دردی بہت ہے
……….
جشن جمہور پہ انعام دیئے جائیں گے
بے ضمیروں کو بڑے کام دیئے جائیں گے
قاتلوں کو بھی ’’پُرسکار‘‘ عنایت ہوں گے
ساتھ میں اور بھی کچھ دام دیئے جائیں گے
مارے جائیں گے بہت لوگ ادھر اور ادھر
اور پھر امن کے پیغام دیئے جائیں گے
سرکار کے کاسہ لیس شاعروں اور دانشوروں سے شاد تا دم آخر سخت نالاں رہے اور اپنی کئی منظومات میں انہیں مخاطب کرکے ان کے رویئے پر افسوس کرتے رہے:
کوئی دانشوروں کو سمجھائے
جی حضوری غلام کرتے ہیں
حرص و لالچ میں بس ہیں گم راہی
یہ تو بس کالانام کرتے ہیں
……….
گردوں دوں کے قہر لئے کیا چلن ہوئے
ہم اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہوئے
شاعر ہوئے جو ظالم و غاصب کے مدح خواں
سگ جیفہ دنیا کے وہی میں و عن ہوئے
اپنے خیالات اور تخلیقات کی وجہ سے مرحوم شاد ہمیشہ کسی نہ کسی طرح سے سرکاری عتاب اور انتقام کا شکار رہے، اس کے علاوہ ایک مدبر شاعر اور تحقیق نگار ہونے کے باوجود انہیں ہمیشہ سرکاری طور پر نظر انداز کیا گیا، 2016 کے اوائل میں کمانڈر برہان وانی کی وفات کے بعد شروع ہونے والی غیر معمولی عوامی بغاوت کے دوران بھارتی فوج نے تین مرتبہ ان کے گھر پر حملہ کرکے وسیع پیمانے پر توڑ پھوڑ کی جس سے ان کی ذاتی لائبریری کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پروفیسر غلام محمّد شاد اگست 2017 کے اوائل میں راہی ملک عدم ہوئے۔آزاد کشمیر کوٹلی سے تعلق رکھنے والے اکرم سہیل بھی شاعروں کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ صرف نڈر اور بیباک ہیں بلکہ اپنی تخلیقات کے ذریعے ظلم اور جبر کیخلاف کھل کر آواز بلند کرتے آئے ہیں،ایک سینئر بیوروکریٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے اکرم سہیل عوامی شاعر ہیں جو عوام کے جذبات کو بڑی حساسیت کیساتھ شعری گرفت میں لاتے ہیں، آپ سے میرا تعارف چھ سال پہلے لاہور میں ایک مشاعرے کے دوران ہوا اور ان کی بیباکی نے مجھے ان کا گرویدہ بنالیا۔ آپ نہ صرف آزادی کشمیر کے بیباک ترجمان ہیں بلکہ آزاد جموں و کشمیر میں سیاسی اور مذہبی اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ اور سفاکیوں سے بھی سخت نالاں ہیں:
جو سامراج تھا وہ تو چلا گیا کب سے
جو ’’کاسہ لیس‘‘ تھے اب تک یہیں پہ قابض ہیں
یہ مال و زر کے عوض خواب بیچ دیتے ہیں
یہ سب وسائل نایاب بیچ دیتے ہیں
آزاد کشمیر کی ہر لمحہ رنگ بدلتی اور کرپٹ سیاست کے بارے میں اکرم سہیل کچھ اس طرح تبصرہ کرتے ہیں:
ہے یہ منڈی، کھلی ہے سب کیلئے
اک چراگاہ حکمرانوں کی
ایسا نکلا جنازہ غیرت کا
اک نئی نسل ہے غلاموں کی.