یونس ایمرے – ترکوں کا محبوب و مقبول شاعر

باتوں کی بحث میں اچانک یونس ایمرے Yunus Emre کا ذکر آگیا۔خاتون نے اناطولیہ کے اس درویش، صوفی اور خداداد صلاحیتوں کے حامل شاعر کا ذکرجس محبت اور شوق سے کیا اُس نے آتش شوق کو گویا بھڑکا سا دیا۔انہوںنے ان کی عوامی اور وحدت میں ڈوبی ہوئی شاعری کے چند ٹکڑے سُنائے اور ایک دلچسپ واقعہ بھی۔زمانہ تو مولانا جلال الدین رومیؒ کا ہی تھا۔کہتے بھی انہیں رومی ثانی ہے، مگر دونوں عظیم شاعروں میں فرق ذریعہ اظہار کا تھا۔مولانا رومی کا کلام اُس وقت ترکی کی شہری اشرافیہ کی مروجہ ادبی زبان فارسی میں ہونے کی و جہ سے خاص الخاص تھا جبکہ یونسEmre کے ہاں ذریعہ اظہار اُن کی عام لوگوں کی، یعنی دیہی علاقوں میں بولی جانے والی ترکی زبان میں ہی تھا۔زبان سادہ ،مفہوم واضح، تشبہات، استعارے عام فہم اور زبان زد عام ہونے والے کلام میں غنائیت اور نغمگی کا بہائو اس درجہ تھا کہ صوفیاء کی محفلوں میں جب گایا جاتا تھا، تو لوگ و جد میں آجاتے تھے۔

یونس ایمرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت شریں گفتار اور لحن دائودی کا سا کمال رکھتے تھے۔کبھی اگر دریا کے کنارے قرأت سے قرآن پاک پڑھتے تو بہتا پانی رک جاتا تھا۔ بہت دلچسپ ایک واقعہ بھی سُن لیجیے، یونس اُمرے کے قونیہ سفر کے دوران کہیں مولانا رومیؒ سے ملاقات ہوئی تو مولانا نے اُن سے اپنی مثنوی کے بارے میں دریافت کیا۔یونس ایمرے نے کہا ’’بہت خوبصورت ،بہت عظیم ،بہت اعلیٰ شاہکار ۔میں مگر اسے ذرا مختلف طریقے سے لکھتا ۔‘‘مولانا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا’’بتائو ذرا کیسے۔‘‘یونس بولے ’’میں آسمان سے زمین پر آیا ۔گوشت پوست کا لباس پہنا اور خود کو یُونس ایمرے کا نام دیا۔‘‘

ترکی کے اس مقبول اور اہم ترین شاعر کا زمانہ لگ بھگ1238ء تا 1320 ء کا ہے۔مقام پیدائش صاری کوئے نامی گائوں میں ہوئی۔اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔مولانا رومی شمس تبریزؒ سے متاثر تھے۔ایسے ہی یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے Tapduk Emre کے قدموں میں گزار دئیے۔اُن کی زیر نگرانی انہوںنے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی،گیت،نظمیں ،غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ذرا دیکھئے کلام کی سادگی اور حُسن۔ ایک لفظ ہی چہرے کو روشن بنا سکتا ہے اُس شخص کیلئے جو لفظوں کی قدرو منزلت جانتا ہے جان لو کہ لفظ کب بولنا ہے اور کب نہیں ایک اکیلا لفظ دنیا کی دوزخ کو آٹھ بہشتوں میں بدل سکتا ہے یونس ایمرے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو زندگی محبت و پیار کے اصولوں پر گزارنی چاہیے۔ان کی فلاسفی میں اُونچ نیچ او ر تفریق کہیں نہیں۔یہ صرف انسانوں کے اعمال ہیںجو انہیں اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔زندگی عفو ودرگزر ،حلیمی اور رواداری جیسے جذبات کے تابع ہونی چاہیے۔

ان کا عقیدہ تھا کہ خدا تک پہنچنے اور بخشش کا راستہ اکابرین دین،مختلف مذہبی اور مسلکی فرقوں کے اماموں کے ذریعے نہیں بلکہ یہ انسان دوستی اور احترام انسانیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہر مذہب اور ہر مذہبی فرقے کا دوسرے کو جہنمی کہنا اور سمجھنا بہت غلط ہے۔دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے۔ان مذاہب اور انسانوں کے احترام سے خدا سے سچا عشق پیدا ہوتا ہے۔ان کا یہ کہنا کتنا خوبصورت ہے۔دین حق سر میں ہے سر پر رکھی جانے والی پگڑیوںاور دستاروںمیں نہیں۔یونس ایمرے عشق حقیقی کے پرستار اور اسیر تھے۔شاعری میں صوفیانہ علم، عجزو انکسار اور انسانیت کا بے پناہ جذبہ نظرآتا ہے۔

یونس ایمرے ترکوں میں بہت ہر دل عزیز ہیں۔دراصل اُن کی شاعری ترکوں کے قومی مزاج کی خوبصورت عکاس ہے۔ترک قوم کی دلیری اور خودداری کا اظہار ہے۔یہی و جہ ہے کہ ان کے اشعار خاص و عام کی زبانوں پر ہیں۔بیرونی دنیا میں اب ان پہچان ہورہی ہے۔ اس کی و جہ دراصل اُن کا کلام اپنی مادری ترکی زبان میں ہے۔ان کے ہم عصر مولانا رومیؒ کا کلام فارسی میں ہونے کی و جہ سے وہ برصغیر اور وسط ایشیا کی ریاستوں میں بہت زیادہ ہر دل عزیز ہیں،تاہم اب انگریزی ترجمے کی و جہ سے یونس ایمرے کے قارئین ان کی خداداد صلاحیتوں سے آگاہ ہورہے ہیں۔اُن کے فن اور کلام کی سادگی، برجستگی اور فلسفے سے واقف ہو رہے ہیں۔ ہم بھی شکر گزار ہوئے کہ انہوںنے ہمیں وقت دیا اور ہمیں ایک عظیم ہستی سے ملوایا۔

(سلمیٰ اعوان کے سفر نامے ’’ استنبول کہ عالم میں منتخب‘‘ سے مقتبس)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے