ملالہ ایک نظریہ ہے

جناح سپر مارکیٹ اسلام آباد کی ایک پوش مارکیٹ جہاں دوپہر اور شام کے اوقات کافی مصروف رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک دوپہر کو مارکیٹ کے ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں پڑھے لکھے لوگوں کا ہجوم کھانے کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر نظریں جمائے 2014 کے نوبل انعام لینے
والی شخصیات کے ناموں کے اعلان کا منتظر تھا۔

ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں بھی بے چینی سے اعلان کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ اس دفعہ پاکستان کی ایک بیٹی کو بھی انعام کے لئے نامزز کیا گیا تھا۔ میرے ارد گر د ہونے والی گفتگو کے کچھ جملے کانوں میں سنائی دیے
’’اس لڑکی کو ایوارڈ نہیں ملنا چاہیے۔ ۔ پہلے ہی اس نے پاکستان کی بہت بدنامی کروا ئی ہے‘‘
’’ یہ سب مغرب کی سازش ہے۔ انہوں نے خود ہی اس پر جھوٹا حملہ کروایا ۔پھر اس کو باہر لے گئے اور اب اس کو نوبل انعام دے کر اسلام کے خلاف استعمال کریں گے۔‘‘
’’ اسے ایوارڈ مل گیا تو لڑکیاں اور سر پر چڑھ جائیں گی ۔ ایک قہقہہ بلند ہوتا ہے۔‘‘
’’اس لڑکی نے ایسا کون سا تیر مارا ہے کہ اس کو ایوارڈ یا جائے۔‘‘

اور پھر اعلان ہوتا ہے کہ پاکستان کی بیٹی ملالہ ہوسف زئی کو نوبل انعام 2014 دیا جاتا ہے ۔
زیادہ تر افراد کے چہروں پر خفگی اور غصے کے آثار نموار ہوئے ہیں ۔
’’ دیکھا ! میں پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ سب مغرب کی سازش ہے ۔ اب یہ لڑکی بھی لیڈر بنے گی۔‘‘

یہ اس طبقے کی گفتگو ہے جو اسلام آباد کے ایف سکس اور ایف سیون سیکٹر میں موجو د بڑی بڑی کمپنیز، بین القوامی اداروں، غیر سرکاری تنظیموں اور سرکاری دفاتر میں کام کرتے تھے ۔ یہ آراء سن کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ ہم من حیث القوم کس طرف جا رہے ہیں

ملالہ سے میرا تعارف نیویارک ٹائم کے صحافی Adam B.Ellickکی اس ڈاکومینٹری سے ہوا جس کا ٹائٹل Class Dismissed تھا ۔ اس ڈاکومینٹری کی پروڈکشن میں Adam B.Ellick کے ساتھ میرے ایک استاد محترم سید عرفان اشرف بھی شامل تھے ۔پہلی دفعہ ان کی زبانی
ملالہ یوسف زئی کے بارے میں سنا۔

اس ڈاکومینٹری میں ملالہ کی غیر معمولی گفتگو سن کر اور حوصلہ دیکھ کر زہن میں ایک بہادر اور مضبوط لڑکی کا تصور آیا۔ اور پھر دشمن کے بچوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اگلے دن پورا پاکستان ملالہ کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ چاروں طرف میں بھی ملالہ ہوں ۔ میں بھی ملالہ ہوں کا شور اٹھا اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

اس کے بعد ہم نے ملالہ کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہم اپنے ملکی اثاثوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ جیسا ہم نے فاطمہ جناح ،باچا خان، بڑے غلام علی خان، سعادت حسن منٹو ، فیض احمد فیض ، حبیب جالب ساحر لدھیانوی اور قرات العین حیدر کے ساتھ کیا ۔ ان سب شخصیات پر غدار ی کا ٹیگ لگا اور ملالہ پر ایجنٹ ہونے کا ۔

ملالہ نے اس وقت ایجنٹی شروع کی جب وہ صرف گیارہ ، بارہ سال کی تھی ۔

ملالہ نے طالبان کے دور میں سوات کے ظلم وجبر سے متعلق بی بی سی کی ڈائری لکھ کر ایجنٹی کی ۔

ملالہ نے سید عرفان اشرف کی ڈاکومینٹری میں سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر بات کر کے ایجنٹی کی ۔

ملالہ نے خود کو خطرے میں ڈال کر ، خو د پر قاتلانہ حملہ کروا کر اور اپنے گھر اور ملک سے در بدر ہو کر ا یجنٹ ہونے کا کردار ادا کیا ۔
ملالہ نے خو دکو مزید ایجنٹ تب ثابت کیا جب اس نے صحتمند ہونے کے بعد اقوام متحدہ میں تعلیم اور خواتین کے حقوق پر تقریر کی اور کہا کہ دہشت گردوں کی گولیوں نے ایک آواز کو خاموش کرنا چاہا لیکن نتیجے میں ہزاروں آوازیں بلند ہو گئیں اور اس کے لئے پوری دنیا کے لیڈر اپنی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔

ہاں ملالہ ایجنٹ ہے ۔
ملالہ تعلیم اور قلم کی ایجنٹ ہے ۔ کیونکہ وہ کہتی ہے کہ مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ میرے لئے کھڑے ہوں -میں کہتی ہوں آپ میرے پیغام کو سمجھیں . اپنے بچوں کو تعلیم دیں.
ملالہ ظلم اور جہالت کو مٹانے والی ایجنٹ ہے ۔

ملالہ پاکستان سے لے کر فلسطین اور افریقہ تک علم کے لئے جدو جہد کرنے والی ایجنٹ ہے ۔
ملالہ پاکستانی لباس اور دوپٹہ اوڑھ کر پوری دنیا میں ہماری نمائندگی کرنے والی ایجنٹ ہے ۔ جہاں وہ جاتی ہے ۔پاکستان کا نام عزت سے لیا جاتا ہے ۔ وہ ہمارے کلچر اور ہماری عزت کی رکھوالی کرنے والی ایجنٹ ہے ۔

اور ملالہ کشمیر پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی ایجنٹ ہے۔
میں بھی ملالہ کے ساتھ ہوں ۔میں بھی ایک ایجنٹ ہوں ۔
یاد رکھیں – نظریے کبھی قتل نہیں ہو سکتے

(یہ کالم ایک سال پہلے لکھا گیا ۔ اس دفعہ ملالہ کی پاکستان آمد پر احساس ہوا کہ سوچ بدل رہی ہے ۔ ملالہ کے پیغام کو اب لوگ سمجھنے لگے ہیں – )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے