جمہوری ڈاکٹرائن

پچھلی ایک ڈیڑھ صدی میں انسانی علم، تاریخ اور سائنس نے جتنی ترقی کی ہے۔ کرہ ارض اور اس کے اندر انسان کے مقام کے بارے میں بنیادی تصورات میں جس قدر ارتقا ہوا ہے اس نے کئی لاکھوں سال کی انسانی تاریخ کو گہنا دیا ہے۔ انسان کے علمی ارتقا کے حوالے سے یہ سو ڈیڑھ سو سال ان لاکھوں سالوں پر بھاری ہیں۔ اس وقت انسانی تاریخ کے علمی و سائنسی ماہرین میں رائج تصورات کے مطابق انسان سے ملتی جلتی ایک اسپیشیز Homo Erectus نے 20 لاکھ سال پہلے افریقہ سے دوسرے براعظموں کی طرف ہجرت کی (سائنسدانوں کے پاس فوسلز کی شکل میں اسکے شواہد موجود ہیں)۔ اسکے بعد ملنے والے شواہد کے مطابق انسان سے مزید قریب اسپیشیز Homo Heidlebergensis نے 5 لاکھ سال پہلے افریقہ سے باہر کی طرف ہجرت کی، اس اسپیشیز کو انسان اور اسکی قریب ترین اسپیشیز Neanderthals کے مشترکہ اجداد شمار کیا جاتا ہے۔ فوسلز شواہد کے مطابق انسان کی موجودہ اسپیشیز جسے سائنسی زبان میں Homo Sapien کہا جاتا ہے 3 لاکھ سال پہلے افریقہ میں وجود میں آئی اور 2 لاکھ اور 30 ہزار سال تک افریقہ میں ہی مقیم رہے۔ قریب 70 ہزار سال قبل انسان نے افریقہ سے باہر پھیلنا شروع کیا اور جو ریلا جس طرف گیا اور جن راستوں سے گزرا اور ان راستوں میں اسکا انسان سے قریبی دوسری اسپیشیز کے ساتھ جس طرح اختلاط ہوا، اسکے مطابق انسان کے مختلف گروہوں میں رنگ، نین نقش، رہن سہن، بود و باش اور ثقافت اور تمدن کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اور انسان کرہ ارض پر بظاہر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے دست و گریبان رہے۔ حتی کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور انسانی علم نے اتنی ترقی کر لی کہ آہستہ آہستہ کرہ ارض میں بسنے والے مختلف گروہوں کے درمیان رابطے بڑھنے لگے اور فاصلے کم ہونے لگے اور جدید دور کا آغاز ہوا۔

جدید دور جسکا آغاز یورپ میں پروان چڑھنے والی روشن خیال اور سائنسی تحریکوں کے نتیجے میں ہوا، آہستہ آہستہ ساری انسانیت کو اپنے سحر میں گرفتار کرنے لگا اور آج حالت یہ ہے کہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہر انسانی گروہ، قوم اور ملک کی مجبوری بن چکا ہے۔ پچھلے کئی سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم، قبیلے یا گروہ نے خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں بنایا، یا پھر جدیدیت کی مزاحمت کی کوشش کی، وہ مغلوب و مفتود ہو گیا اور اگر اسکا وجود باقی بچا تو اسکی باقیات کو بالآخر جدیدیت کو اپنانا پڑا۔ دور جدید کے بنیادی تقاضے آخر کیا ہیں جن کی پابندی سب پر لازم ٹھہری؟ مختصرا یہ تقاضے سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج، جمہوری طرز حکومت، سیکولرازم اور بین الاقوامیت جیسے تصورات پر مشتمل ہیں۔ 
اگر آج ہم اپنے ارد گرد بسنے والی اقوامِ عالم پر نظر دوڑائیں تو آپکو تمام ترقی یافتہ ممالک ان تقاضوں سے ہم آہنگ نظر آئیں گے۔ مثلا امریکہ سائنس و ٹیکنالوجی، جمہوریت، سیکولرازم اور بین الاقوامیت کے سارے تقاضے پورے کرتا ہے، یہی حال زیادہ تر مغربی یورپ کے تمام ممالک کا ہے۔ سو وہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ اسکے بعد روس اور چین کا نمبر آتا ہے، جو باقی تمام تقاضے تو پورے کرتے ہیں لیکن جمہوریت کے حوالے سے انکی کمزوری عیاں ہے۔ اسکے بعد دنیا کی ابھرتی ہوئی قوتوں کا ذکر آتا ہے تو ان میں بھارت، برازیل اور سائوتھ افریقہ کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ ممالک بھی اسی لئے ابھر رہے ہیں کہ انہوں نے جدیدیت کے مندرجہ بالا تقاضوں سے خود کو مکمل طور پر نہیں تو کافی حد تک ہم آہنگ بنایا ہے۔ اور اس وقت دنیا میں سب سے پیچھے رہ جانے والے ممالک وہ ہیں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کو بُرا تصور کیا جاتا ہے، جمہوریت کو گناہ خیال کیا جاتا ہے، سیکولرازم کو ناپسند کیا جاتا ہے اور بین الاقوامیت کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔

بھارت اور پاکستان حریف ہیں اسلئے بھارت میں کیا ہوتا ہے وہ ہمارے لئے اہم ہے خصوصاً جب حالات ایسے ہوں کہ بھارت دن بدن ترقی کر رہا ہے اور ہم دن بدن مزید پیچھے جا رہے ہیں۔ اسی تناظرمیں وطن عزیز میں جاری نئی بحث کا احاطہ کرتے ہیں جس کا محور ایک نیا ڈاکٹرائن بتایا جا رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طالبعلم کی نظر میں یہ کوئی نیا ڈاکٹرائن نہیں ہے بلکہ یہ وہی ڈاکٹرائن ہے جو جنرل ایوب کے زمانے سے پاکستان میں رائج ہے سو اسے ’’ایوب ڈاکٹرائن‘‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ اس ڈاکٹرائن کے مخصوص اجزا کیا ہیں؟ اول، پاکستان ایک مضبوط وفاق ہو۔ دوم، اس وفاق کا اصل کنٹرول عوام کے منتخب اداروں کے بجائے غیر منتخب اداروں کے ہاتھ میں ہو۔ سوم، غیر منتخب اداروں کے اقتدار کے اس ماڈل میں سب سے بالا دست وہ ادارہ ہو گا جو سب سے زیادہ منظم اور محبِ وطن ہے۔ چہارم، سب سے منظم ادارے وفاق کی مختلف اکائیوں سے برابری یا متناسب نمائندگی کی بنیاد پر بھرتی افراد پر مشتمل نہیں ہوں گے بلکہ انگریز دور کے نسلی تصورات ہی بھرتی کی بنیاد رہیں گے۔ پنجم، وفاق اور اکائیوں کی تمام پالیسیوں کو غیر منتخب اداروں کی ضروریات سے ہم آہنگ بنانا ضروری سمجھا جائے۔ ششم، چھوٹی اکائیوں میں جو بھی جمہوری یا قوم پرست تحریکیں اٹھیں، وہ وفاق کو کمزور کرنے کی سازش ہیں سو انہیں بزور قوت کچل دیا جائے۔ ہفتم، وفاق کی یکجہتی کی بنیاد مذہبیت اور حب الوطنی ہو۔ اس ڈاکٹرائن کا لازمی نتیجہ وفاق کی مضبوطی کی بجائے اسکے برعکس نکلنا تھا، سو نکلا اور جلد ہی مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔ باقی ماندہ پاکستان میں بھی غیر منتخب اور غیر متناسب طرزِ حکمرانی کے ذریعے وفاق کو مضبوط کرنے کی کوششیں الٹا مرکز گریز تحریکوں کو جنم دینے لگیں۔ ان تحریکوں کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوششوں میں ملک کے قیمتی وسائل اور جانی ضیاع سے ملکی معیشت اور یکجہتی مزید کمزور ہوتی رہی جو مزید وفاق مخالف تحریکوں کو جنم دیتی رہی۔ سو ہم اس دلدل میں دھنستے دھنستے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ریاستی سرپرستی میں مذہبی انتہا پسندی نے سائنس و ٹیکنالوجی اور سیکولرازم کو پنپنے نہیں دیا اور ہم بین الاقوامی سطح پر ترقی کی دوڑ میں پیچھے سے پیچھے جاتے جا رہے ہیں اور رہی سہی کسر مذہبی بنیادوں پر استوار کی جانے والے خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ملنے والی بین الاقوامی تنہائی نے پوری کر دی ہے۔ بزورِ طاقت عوامی امنگوں کو دبانے اور منتخب عوامی اداروں کو ہمہ وقت کمزور کرنے کی کوششوں سے گورننس کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔

اسکے برعکس بھارت نے جو ڈاکٹرائن اپنایا وہ جمہوری ڈاکٹرائن ہے جسکی وجہ سے بھارت اس وقت دنیا میں ایک اہم جمہوری، معاشی، عسکری اور سیاسی قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ اگرچہ بھارت کی آزادی کے وقت بھی وہاں پر انگریز کے چھوڑے ہوئے غیر منتخب ادارے بہت منظم اور طاقتور تھے لیکن بھارت میں شروع دن سے منتخب سیاستدانوں نے ریاست کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور تمام غیر منتخب اداروں کو عوام کی منشا کے تابع اور عوام کے حکم کا پابند بنا دیا۔ اگرچہ بھارت میں بھی ہندو انتہا پسندی کی بڑی مضبوط تحریک موجود تھی (جو اب اپنے عروج پر ہے) لیکن نہرو نے شروع سے ہی بھارت کی قومیت کی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی اور سائنس و ٹیکنالوجی کو اولین ترجیحات میں شامل کیا۔ اسی طرح بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد بین الاقوامیت کو بنایا نہ کہ مذہبیت پر۔ نتیجتاً اس نے نہ صرف امریکہ اور سوویت یونین جیسی دونوں سپر پاورز سے اچھے تعلقات رکھے اور فوائد سمیٹے بلکہ غیر جانبدار ممالک کی تنظیم میں بھی اہم کردار اپنا لیا۔ دونوں طرح کے ڈاکٹرائن کے نتائج سب کے سامنے ہیں، اور اصلاح کا راستہ اب بھی کھلا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے