سرگودھا یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار مدثر کامران کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع

قائم مقام رجسٹرار یونیورسٹی آف سرگودھا کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع، مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خصوصی آڈٹ رپورٹ نے قائم مقام رجسٹرار سرگودھا یونیورسٹی مدثرکامران کی کرپشن کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے اس کی تعیناتی کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا جبکہ قائم مقام رجسٹرار نے اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔

تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کی ہدایات پر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹراکرم چوہدری کے دو ادوارسال2007-2015کاخصوصی آڈٹ کیا جس میں میرٹ اور شفافیت کے نام پر ہونے والی بے ضابطگیوں کا پول کھل گیا۔ رپورٹ نے اس وقت کے ایڈیشنل رجسٹرار اور موجودہ قائم مقام رجسٹرار مدثر کامران کو سابقہ وائس چانسلر کا فرنٹ مین قرار دیتے ہوئے اکرم چوہدری کے دور میں ہونے والی مالی و انتظامی بے ضابطگیوں اور قوانین کی خلاف ورزیوں میں برابر کا شریک ٹھہرا دیا،آڈٹ رپورٹ میں خاص طورپر کالجز کے الحاق اور پرائیویٹ کیمپسز کے قیام کی مد میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی نشاندہی کی گئی ہے، مدثر کامران نے یونیورسٹی کے ضابطہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی کالجز کا الحاق کیا جبکہ پرائیویٹ کیمپسز کے قیام میں بھی قوانین کو پس پشت ڈال کر کرپشن کی راہ ہموار کی، بعد ازاں انہی پرائیویٹ کیمپسز کے ذریعے جعلی ڈگریاں فروخت کر کے کروڑوں روپے بٹورے گئے۔

آڈٹ رپورٹ میں مدثر کامران کی تعیناتی پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سابق وائس چانسلر اکرم چوہدری نے کرپشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کئی سینئر افسران کو نظر انداز کرکے مدثر کامران کو ڈپٹی رجسٹرار (Affliation and registration)اور بعد ازاں ایڈیشنل رجسٹرار مقرر کر دیا اور اس کے ذریعے سینکڑوں گھوسٹ کالجز کے الحاق سے مال بنایا اور پرائیویٹ کیمپسز کا قیام بھی کرپٹ مقاصد کے حصول کے لیے عمل میں لایا گیا، مدثر کامران کو یونیورسٹی کی کیمپس پرویژن کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیاا ور یوں اس کی سرپرستی میں کالجز کے الحاق اور سب کیمپسز کے معاملہ میں من مانیاں کی گئیں۔ 2007سے2015کے عرصہ میں572کالجز کا الحاق کیا گیا اور مجازحکام سے اجازت بھی نہیں لی گئی جبکہ ان میں سے بیشتر گھوسٹ کالجز تھے جن کے پاس نہ تو انفراسٹرکچر تھا اور نہ ہی فیکلٹی۔

دستاویزات کے مطابق مدثر کامران نے لاہور کیمپس کو ایسے ڈگری پروگرامز شروع کرنے کی اجازت دی جو مین کیمپس میں بھی نہیں پڑھائے جاتے تھے۔یہاں بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدثر کامران پر خلاف ضابطہ اضافی تنخواہ وصول کرنے اور یو ایس امبیسی کے ایک پراجیکٹ میں وسیع پیمانے پر کرپشن کرنے کا الزام بھی عائد ہے۔

ریزیڈنٹ آڈیٹر یونیورسٹی آف سرگودھا اسد حسین سندھو کی جانب سے سنڈیکیٹ میں پیش کردہ ایک اور رپورٹ کے مطابق مدثر کامران نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’ پاکستان انگلش ایکسس مائیکرو سکالرشپ پروگرام‘‘ کے فنڈز میں1کروڑ روپے سے زائدکی خرد برد کی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مدثر کامران ایڈیشنل رجسٹرار کے عہدے پر 3سال تک تعینات رہے جبکہ ایک مستقل رجسٹرار کی مدت بھی3سال ہی ہے ، ان کی تعیناتی پر بارہا سوال اٹھائے گئے وہ مختلف حیلوں سے اس پوسٹ پر قابض رہے اور مستقل رجسٹرار کی تعیناتی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے اور اب اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات پر اثرانداز ہونے کے لیے انہوں نے اپنا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ سے قائم مقام رجسٹرار کی تعیناتی کا حکم نامہ بھی حاصل کر لیا ہے۔حال ہی میں یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ڈاکٹر محمد افضل،ڈاکٹر محمد شیر اور شفیق الرحمن پر مشتمل3رکنی کمیٹی بنائی ہے جو پیڈا یکٹ کے تحت مدثر کامران کے خلاف تحقیقات کرے گی جبکہ نیب بھی کالجز کے الحاق، سب کیمپسز کے قیام کے پیچھے پوشیدہ کرپٹ مقاصد کے تناظر میں تحقیقات کر رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے