جواد نظیر اور خوفزدہ لوگ

جواد نظیر مر گیا۔ کیا اس اطلاع میں خبر کا پہلو پایا جاتا ہے؟ جواد نظیر اعلیٰ پائے کا نیوز ایڈیٹر تھا۔ اچھا نیوز ایڈیٹر خبر پر ایک نظر ڈال کر سونگھ لیتا ہے کہ اس خبر کے پس منظر میں کون سی خبر ہے اور اس کے بعد کیا خبر آئے گی۔ جواد نظیر کی موت میں خبر نہیں۔ صحافت کے افق پر گردوغبار کی آلودگی نمودار ہوتی ہے تو پاکستان کی صحافت ٹھیک اسی طرح ایک بڑے صحافی کی قربانی دیا کرتی ہے جیسے قدیم مصر میں دریائے نیل خشک ہونے پر کنواری لڑکی کی بھینٹ دی جاتی تھی۔ اپریل 1959ء میں پاکستان ٹائمز اور امروز پر ریاست نے قبضہ کیا تو میاں افتخار الدین عدالتوں کے دروازے پر دستک دیتے رہے۔ انصاف کا دروازہ نہیں کھلا تو جون 1962ء میں میاں افتخار الدین کا دل بند ہو گیا۔

فیض صاحب نے اس پر لکھا تھا… نہ گنواؤ ناوک نیم کش، دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔ 1978ء میں ضیا آمریت نے روزنامہ مساوات بند کیا تو ابراہیم جلیس نڈھال ہو گئے۔ ابراہیم جلیس کا حساس دل 400 صحافیوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے کا اضطراب برداشت نہیں کر سکا، دھڑکنا بھول گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران کراچی میں ہر روز لاشیں گرتی تھیں۔ قاتل طاقتور تھے، اس ابتلا کی خبر دینے والے صحافی کمزور تھے۔ حکومت اخبارات پہ چڑھ دوڑی، رضیہ بھٹی نے اپنی جان کی قربانی دے دی۔

سلیم عاصمی، احفاظ الرحمن اور محمد حنیف جیسے صحافی جانتے ہیں کہ رضیہ بھٹی کو سرکار دربار سے دھمکی آمیز فون کون کرتا تھا۔ اور اب جواد نظیر ایسے موسموں میں رخصت ہوا ہے جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں۔ اقبال نے ایک مصرعے میں چراغ اور شرار کا بلیغ استعارہ استعمال کیا ہے۔ تسلیم کہ چراغ کو ستیزہ کاری سے گریز نہیں لیکن میر انیس نے کہا تھا… چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے۔ میر انیس عافیت کوشی کا سبق تو نہیں دے رہے تھے۔ میر انیس تو صلائے عام دے رہے تھے کہ عشق کے حریفوں کا مسلسل تعاقب کیا جائے۔ وہی جو مصحفی نے کہا تھا، مت چھوڑیو تو ساتھ نسیم سحری کا۔

دیکھیے! ایک تو ہے واقعہ اور دوسرا واقعے کی اطلاع ہے۔ بیچ میں خبر رساں ہے۔ خبر رساں کو خاموش کر دینے سے واقعے کے شواہد ختم نہیں ہوتے۔ حقائق ٹھوس مادی وجود رکھتے ہیں۔ برادر محترم سہیل وڑائچ نے اگلے روز یہ مقدمہ چند لفظوں میں سمو دیا۔ لکھا، ’کہیں سے غیبی امداد آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اقتصادی بدحالی سے نکلنے کا کوئی ایسا خفیہ فارمولا نہیں جو ہم استعمال کر سکیں۔ معاشی اصول واضح ہیں کہ برآمد بڑھائیں، درآمد کم کریں اور ریاست کا ہر شہری ٹیکس دے۔‘ برادر محترم تو قطرے میں دجلہ سمونا جانتے ہیں، درویش کو کچھ وضاحت کرنا پڑے گی۔ اقوام متحدہ میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے خوب گرج چمک دکھائی۔ جواب میں شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے جوہر دکھائے۔

ہم اردو میڈیم لوگ تو اسی میں نہال ہو گئے کہ قریشی صاحب نے اردو زبان جنرل اسمبلی میں پہنچا دی۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے چالیس برس پہلے جنرل ضیا الحق نے بصری فریب کاری کے ذریعے قاری خوشی محمد کو جنرل اسمبلی میں پہنچا دیا تھا۔ اس غیرضروری بحث سے ہٹ کے کچھ حقائق پر غور کرنا چاہئے۔ بھارت کا رقبہ ہم سے چار گنا اور آبادی چھ گنا زیادہ ہے۔ رقبے اور آبادی کا یہ فرق ہم تبدیل نہیں کر سکتے۔ کچھ معاملات میں البتہ ہمیں بھارت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں جی ڈی پی کا حجم 2600 ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔ ہمارے جی ڈی پی کا حجم 300 ارب ڈالر ہے۔ یہ ایک اور نو کا تناسب ہے۔ بھارت میں زر مبادلہ کے ذخائر 400 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے۔ ہم 16 ارب ڈالر پہ لڑکھڑا رہے ہیں۔

برادر محترم کہتے ہیں، برآمدات بڑھاؤ۔ برآمدات تو پیداواری معیشت میں بڑھائی جاتی ہیں۔ آخر دنیا ہم سے کہاں تک وزیر آباد کی دریاں، کھیس اور فیصل آباد کے تولیے خریدے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ہمیں پیداواری شعبے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ اس کا خام مال ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ خام مال ہماری بائیس کروڑ کی آبادی ہے جس کی اوسط عمر 22.6 برس ہے۔ آج صحیح تعلیم میں سرمایہ کاری کریں تو اگلے بیس برس میں ہمارے ملک میں بائیس کروڑ کارخانے کھڑے ہو جائیں گے۔ کیا امریکہ کے بل گیٹس اور اسٹیو جابز سے بڑا بھی کوئی کارخانہ ممکن ہے؟

مصنوعات کی معیشت ہنرمند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت سے تعلق رکھتی ہے۔ فیض نے کہا تھا تیرا سرمایہ یہی ہاتھ تو ہیں۔ ان ہاتھوں میں کتاب دینے کی ضرورت ہے۔ جدید علوم کی مخالفت اور جدید ٹیکنالوجی سے محبت کا جو نفسیاتی عارضہ ہم نے پال رکھا ہے، اس کا علاج کرنا چاہیے۔ اسٹیفن کوہن لکھتا ہے کہ پاکستان تو ایک کرینک شافٹ بھی پیدا نہیں کرتا۔ اس سامراجی نمائندے کو گالیاں دینے کی بجائے اپنی افرادی قوت میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔

مشکل یہ ہے کہ ہمارے جواں سال وزیر اعظم اس خیال کے اسیر ہیں کہ مبینہ بدعنوانی سے کمائی گئی دولت واپس لانے سے خوشحالی کا راستہ کھل جائے گا۔ عوام کے جذبہ ایثار اور کفایت شعاری کی مدد سے معاشی بحران دور ہو سکے گا۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ وزیر اعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے فی کس ایک ہزار ڈالر مانگا تھا، بتائیے ایک ماہ میں کتنے ہزار ڈالر موصول ہوئے؟ ایک خیال یہ ہے کہ کوئی بیرونی طاقت ہمیں معیشت کے گرداب سے نکال سکتی ہے۔

یہ ہوائی قلعے انتخابی مہم میں تعمیر کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ گزشتہ دو ماہ میں زمین بوس ہو چکے اور کچھ جلد منہدم ہو جائیں گے۔ وزیر خزانہ اسد عمر معاشی صورتحال کو بہتر سمجھتے ہیں۔ دبے لفظوں میں حقیقت پسندی کا مشورہ دیتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ بنیادی تضاد مالی وسائل اور اخراجات کے فرق کا ہے۔ اور یہ فرق اس لیے پیدا ہوا ہے کہ ریاستی اداروں اور عوام کے معاشی مفاد میں تصادم پیدا ہو گیا ہے۔ طاقتور ریاستی اداروں کی معاشی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے جو سیاسی بساط بچھائی گئی ہے اور جو سماجی منظر مرتب کیا گیا ہے اس سے ملک کے اندر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے اور بیرونی دنیا میں ہماری ساکھ تباہ ہو گئی ہے۔ ایک مستحکم جمہوریت میں اوسط درجے کی قیادت سے کام چل سکتا ہے۔

پاکستان کو غیر معمولی قیادت کی ضرورت ہے۔ غیر معمولی قیادت محض پیشہ ورانہ مہارت اور فائلیں نمٹانے کا معاملہ نہیں۔ غیرمعمولی قیادت سیاسی عمل کے نامیاتی ارتقا سے پیدا ہونے والی سیاسی بصیرت کا نام ہے۔ اگر ہم سرے سے سیاسی عمل ہی میں یقین نہیں رکھتے اور سیاسی قیادت کو بحیثیت مجموعی نااہل، بدعنوان اور ناقابل اعتماد سمجھتے ہیں تو ملک میں غیر معمولی بصیرت کی حامل اور موقر قیادت نہیں ابھر سکتی۔ انتخابات کے حسب منشا نتائج مرتب کیے جا سکتے ہیں معیشت کے نتائج ہماری خواہشات کے تابع نہیں ہیں۔

یہی حقیقی خبر ہے۔ اس خبر کو لوگوں تک پہنچانے کی خواہش رکھنے والا جواد نظیر مر گیا۔ خبر سے خوفزدہ قبیلہ زندہ ہے اور پھل پھول رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے