صحابہ کے تعارف پر تین بنیادی کتابیں

درج ذیل تین کتابیں ایسی ہیں کہ علم الرجال، وتراجم اور احوال صحابہ میں ان کو امہات الکتب کی حیثیت حاصل ہے:

[pullquote]1۔الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب:[/pullquote]

اس کتاب کے مصنف ابوعمر، یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر، نمری، قرطبی ، مالکی(368ھ،463ھ) ہے۔

مشہور محدث، مؤرخ اور ادیب گزرے ہیں۔ مصنف کی رائے میں صحابی وہ ہے جس نے آپﷺ کو دیکھا، یا اسے آپ کے پاس تحنیک کے لیے حاضر کیا گیا یا اس نے آپ کو خواب میں دیکھا۔ اسی تعریف کی بنیاد پر مصنف نے کتاب میں ایسی ہی شخصیات کا تعارف پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں 3500 تراجم ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کی ترتیب نام کے صرف پہلے حرف میں حروف معجم پر رکھی گئی ہے، بقیہ حروف میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔

مصنفؒ اَنساب، مشاہد اور مناقب کا بھی تذکرہ کرتے ہیں اور اکثر ناموں کی کنیت لکھنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف پر حدیث کا رنگ زیادہ غالب ہے، اپنی سند کے ساتھ باقاعدہ احادیث ذکر کرتے ہیں۔
مصنف نے بنیادی طور پرچھ شخصیات کو اپنی کتاب کے لیے مصدر بنایا ہے: موسی بن عتبہؒ، محمد بن اسحاقؒ، خلیفہ بن صباطؒ، ابن جریر طبریؒ، امام بخاریؒ اور بغویؒ۔

[pullquote]2۔اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ:[/pullquote]

یہ ابوالحسن، ابن الاثیر، علی بن محمد شیبانی، جزریؒ (555ھ،630ھ) نے اقصیٰ کی طرف سفر کرتے ہوئے لکھی ہے۔

احوال صحابہ پر ایک عمدہ کتاب ہے۔مصنف نے سابقہ متفرق ومنتشر معلومات کو جمع کر کے ان کی تنقیح وتہذیب کر کے ایسا خزانہ تیار کیا ہے جس سے ہر کسی کے لیے استفادہ نہایت آسان ہوگیا ہے۔ اس کتاب میں کل 1714 تراجم ہیں۔ مصنفؒ نے تمام ناموں کے تمام حروف میں حروف معجم کی رعایت رکھی ہے۔ اس کتاب میں استیعات کے برعکس تاریخی رنگ زیادہ غالب ہے، کیونکہ مصنف اسناد کا اہتمام کم کرتے ہیں۔ اس کتاب میں تاریخ وفات کا اہتمام ابن عبد البرؒ سے زیادہ پایا جاتا ہے اور اس میں دو مزید ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو استیعاب میں نہیں ہیں:

1. ایک ضبطِ کلمات، یعنی مشکل الفاظ کے صحیح تلفظ کے لیے ان پر باقاعدہ حرکات وسکنات لگائے ہیں۔
2. دوسرے "مظھر” کا تذکرہ، یعنی صحابہ کی جسمانی ہیئت وشباہت کو بھی بیان کرتے ہیں۔

مصنف نے اس کتاب میں چار شخصیات پر بطورِ مصدر اعتماد کیا ہے :ابن مندہؒ(جن کی طرف مصنف "د” سے اشارہ کرتے ہیں) ابونعیم اصفہانی (ان کی طرف مصنف "ع” سے اشارہ کرتے ہیں) ابن عبد البر (آپ کی طرف "ب” سے اشارہ کرتے ہیں) اور ابو موسی المدینی(جن کی طرف "س” کے حرف سے اشارہ کرتے ہیں۔)

[pullquote]3۔الاصابہ فی تمییز اَسماء الصحابہ:[/pullquote]

یہ حافظ ابن حجر، احمد بن علی، عسقلانیؒ (773ھ،852ھ) کی شاہکار تصنیف ہے۔ آپ کے نام نامی سے حدیث کا کوئی طالب علم شاید ہی نا آشنا ہو۔ اس کتاب کی خصوصیات کو مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہیں:
1۔جامع اختصار، کیونکہ مصنفؒ نے اس کتاب میں سابقہ دونوں کتابوں کا نچوڑ اور مزید معلومات کا اضافہ کرکے بھی اس کو زیادہ طویل نہیں ہونے دیا۔

2۔مصادر میں توسع، آپ نے چند محدود مصادر پر قناعت نہیں کی، بلکہ بہت سارے مصادر سے استفادہ کیا ہے۔

3۔تصحیح ِ اَخطاء، مصنف ؒ نے اس کتاب میں سابقہ مصنفین کی غلطیوں کی تصحیح اور ان کی کوششوں اور مساعی کی تہذیب بھی کی ہے۔ سابقین کی اخطاء کی تصحیح اسی کتاب کی خاصیت ہے۔

4۔حدیث کے علوم کاذخیرہ، اس کتاب میں مصنف نے بہت ساری احادیث کو بیان کیا ہے اور ان کی تصحیح و تضعیف، تخریج اور ان کے متابعات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

آپ نے اپنی کتاب کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:

1۔وہ صحابہ جن کی صحابیت معروف ومشہور طریقوں سے ثابت ہیں۔

2۔عہد نبوی کے وہ بچے جن کی عمرآپﷺ کی وفات کے وقت سن تمیز کو نہیں پہنچی تھی۔

3۔محضرمین، یعنی وہ صحابہ جنہوں نے زمانہ جاہلیت واسلام دونوں کو پایا، لیکن آپﷺ کی حیات میں مسلمان ہو کر آپ سے ملاقات نہ کرسکے۔

4۔وہ شخصیات جن کو سابقہ مصنفین نے وہم اور غلطی سے صحابہ میں شمار کیا ہے۔
شادمحمدشاد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے