کنکر جوتے کے اندر ہے

’’یہ پلان بی ہے‘ حکومت اگر بے بس ہو گئی تو یہ نئے الیکشن کرا دے گی‘‘ صاحب نے جیب سے سگار نکالا‘ ماچس رگڑی اور شعلہ سگار کے سرے پر رکھ دیا‘ کمرے میں کیوبن سگار کی ہلکی ہلکی خوشبو پھیلنے لگی‘ مجھے تمباکو کی بو پسند نہیں ‘ مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن سگار میں نہ جانے کیا جادو ہے مجھے اس کی خوشبو مدہوش کر دیتی ہے۔

میں دھوئیں کے اندر بیٹھا رہتا ہوں اور سگار کی خوشبو کلاسیکل موسیقی کی طرح میرے اندر بجتی‘ میرے باطن کو گدگداتی رہتی ہے‘ صاحب بھی آہستہ آہستہ مدہوش ہو رہے تھے‘ وہ سگار پی رہے تھے اور اپنے ریشمی گائون کی ڈوریاں کھول اور بند کر رہے تھے‘ آتش دان میں لکڑیاں چٹخ رہی تھیں‘ کمرے میں مدہم مدہم سی گرمائش تھی اور کھڑکیوں کے پٹوں پر بارش آہستہ آہستہ برس رہی تھی۔

صاحب ذوق کا مجسمہ ہیں‘ وہ آتش دان میں تھوڑی دیر بعد صندل کی چھال ڈال دیتے تھے اور کمرہ فوراً مہکنے لگتا تھا‘ میں نے صاحب سے پوچھا ’’کیا عمران خان واقعی ارلی الیکشن کرا دے گا‘‘ صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ’’ہاں یہ اس کا پلان بی ہے‘ اپوزیشن نے اگر قانون سازی میں حکومت کی مدد نہ کی تو خان حکومتیں توڑ کر ارلی الیکشن کرا دے گا‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا آپ سیریس ہیں‘ حکومت کو ابھی جمعہ جمعہ چار ماہ بھی پورے نہیں ہوئے اورآپ ارلی الیکشن کے بارے میں سوچ رہے ہیں‘ کیا یہ عقل مندی ہو گی؟‘‘۔

صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’ آج کے دور میں عقل مندی کی توقع سے بڑی کوئی بے وقوفی نہیں‘ مقابلہ اب حماقت اور بہت زیادہ حماقت کے درمیان ہے‘‘ وہ رکے‘ سگار کا لمبا کش لیا اور ہونٹوں کے کونوں سے دھوئیں اگلنے لگے‘ میں نے پوچھا ’’لیکن عمران خان یہ حماقت کیوں کریں گے‘‘ صاحب نے خوفناک مکروہ قہقہہ لگایا اور پھر بولے ’’یہ سمجھتے ہیں حکومت کو اپنا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے چنانچہ یہ پہلے اپنے مخالفین کو جیلوں میں پہنچائیں گے۔

میاں نواز شریف اپنے تمام اہم ساتھیوں خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق‘ احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی اور پرویز رشید کے ساتھ جیل پہنچ جائیں گے‘ مولانا فضل الرحمن ‘ محمود خان اچکزئی اور بلاول بھٹو بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم لیڈروںکے ساتھ جیل میں ہوں گے‘ یہ تمام لوگ جب سات سات ‘دس دس سال کے لیے قید ہو جائیں گے تو عمران خان کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا‘ یہ اطمینان سے ارلی الیکشن کروائیں گے اور دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں گے‘‘۔

میں نے بے چینی کے ساتھ کروٹ بدلی اور پوچھا ’’لیکن بلاول بھٹو کیوں جیل جائیں گے‘ یہ کبھی اقتدار میں نہیں رہے‘ یہ درست ہے جے آئی ٹی نے سندھ میں 358 ارب روپے کے جعلی اکائونٹس پکڑ لیے ہیں‘ ان اکائونٹس کا آصف علی زرداری کے دوستوں کے ساتھ تو کوئی نہ کوئی تعلق ہو سکتا ہے لیکن بلاول بھٹو کے ساتھ نہیں‘ یہ بھی ثابت ہو رہا ہے آصف علی زرداری کے دوستوں نے بینک بنایا‘ بینک کی گارنٹی کی رقم کراچی کے سرکاری ٹھیکیدار قسطوں میں جمع کراتے رہے‘ ٹھیکیداروں نے اپنا جرم بھی تسلیم کر لیا اور جے آئی ٹی کو یہ بھی بتا دیا۔

یہ کس کے حکم پر کس کے اکائونٹ میں کتنی رقم جمع کراتے رہے‘ یہ بھی ثابت ہو رہا ہے جعلی اکائونٹس کے ذریعے رقم کراچی سے دبئی‘ دبئی سے سوئٹزر لینڈ اور وہاں سے لندن جاتی رہی اور یہ رقم لندن میں ایک خاتون اور برطانیہ میں پاکستان کے ایک سابق ہائی کمشنر کے ایک صاحبزادے کے اکائونٹ میں پارک ہوتی رہی اور یہ دونوں اس سے پراپرٹی خریدتے رہے لیکن اس میں بلاول بھٹو کا کوئی ہاتھ‘ کوئی عمل دخل نہیں تھا‘‘۔

صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’بلاول بھٹو کی گرفتاری کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ قانونی اور دوسری سیاسی ہے‘ ہم پہلے قانونی وجہ کی طرف آتے ہیں‘ آصف علی زرداری نے 2008ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اپنا کاروبار اور زیادہ تر کمپنیاں بچوں کے نام کر دی تھیں چنانچہ آصف علی زرداری قانوناً کسی اصلی یا جعلی اکائونٹ اور کسی سودے کے بینی فشری نہیں ہیں‘ بینی فشری بلاول بھٹو ہیں۔

زرداری خاندان نے 2008ء سے 2014ء کے درمیان بلاول ہائوس کراچی کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے موجود 48 گھر‘ پلازے اور زمینیں خرید یں‘ یہ پراپرٹیز بعدازاں بلاول ہائوس میں ضم کر دی گئیں‘ یہ خریداری جس کمپنی کے ذریعے ہوئی وہ بلاول بھٹوکے نام ہے‘ جے آئی ٹی کو چند کلیوز ملے ہیں جن سے اب یہ ثابت کرنا مشکل نہیں کہ رقم پہلے جعلی اکائونٹس سے اس کمپنی میں آئی اور کمپنی نے یہ رقم بلاول ہائوس کے گرد موجود پراپرٹیز کی خریداری میں استعمال کی۔

یہ رقم 84 ارب روپے ہے چنانچہ بلاول بھٹو بڑی آسانی سے شکنجے میں آ جائیں گے‘ یہ قانونی وجہ تھی‘ میں اب تمہیں سیاسی وجہ بتاتا ہوں‘ عمران خان کو زرداری صاحب سے کوئی خطرہ نہیں‘ یہ بیمار بھی ہیں اور پارٹی ان کے امیج کی وجہ سے ان سے خوش بھی نہیں‘ حکومت کو اصل خطرہ بلاول بھٹو سے ہے‘ یہ باہر رہیں گے تو حکومت کے لیے حکومت مشکل ہو جائے گی‘ عمران خان بلاول کی موجودگی میں ارلی الیکشن کا رسک بھی نہیں لے سکتے چنانچہ بلاول کی گرفتاری حکومت کو سوٹ کرتی ہے۔

بلاول کے مقابلے میں اگر آصف علی زرداری گرفتار ہوتے ہیں تو حکومت انھیں اٹھا اٹھا کر اسپتالوں میں بھی پھرتی رہے گی اور ان کی گرفتاری سے پاکستان پیپلز پارٹی کو نئی آکسیجن بھی مل جائے گی ‘ پاکستان تحریک انصاف کسی قیمت پر یہ نہیں چاہے گی چنانچہ گرفتار بہرحال بلاول بھٹو ہی ہوں گے اور زرداری صاحب بیٹے کی رہائی اور جیل میں اس کے لیے رعایتوں کے بدلے حکومت سے ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہو جائیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔

میں نے ان سے پوچھا ’’اور میاں نواز شریف؟‘‘ وہ اداس لہجے میں بولے ’’میاں صاحب بے چارے اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر ابھی تک جیل کے شاک سے نہیں نکلے‘ یہ دونوں بری طرح بیمار ہو چکے ہیں‘ کیپٹن صفدر نے وزن کم کرنے کے لیے لندن سے اپنا معدہ آدھا کروایا تھا‘ یہ جیل میں مخصوص خوراک نہیں کھا سکے چنانچہ یہ بری طرح بیمار ہو گئے۔

جیل میں گرمی اور حبس تھالہٰذا مریم نواز بھی بیمار ہو گئیں‘ میاں نواز شریف کو اپنی اہلیہ دنیا کی ہر چیز‘ ہر عہدے سے زیادہ عزیز تھیں‘ یہ ان کے انتقال کے شاک سے باہر نہیں آ سکے اور یہ شاید کبھی نہ آ سکیں‘ یہ دن کا ایک حصہ والدہ کے ساتھ گزارتے ہیں‘ ایک حصہ اہلیہ کی قبر پر صرف کرتے ہیں اور ان کا باقی وقت وکلاء اور تلاوت قرآن مجید پر خرچ ہوتا ہے‘ ان کی یادداشت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے‘ یہ نام‘ مقام اور واقعات بھولنا شروع ہو گئے ہیں۔

یہ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں چنانچہ حکومت کے پاس اب ان کے لیے دو آپشن ہیں‘ یہ انھیں جیل میں ڈال دے یا پھر میاں شہباز شریف سے یہ گارنٹی لے لے میاں نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے اور یہ باقی زندگی خاموش رہیں گے‘ حکومت اس گارنٹی کے بعد میاں نواز شریف کو ان کے حال پر چھوڑ دے مگر میاں نواز شریف یہ آپشن قبول نہیں کررہے لہٰذا یہ اب العزیزیہ اور فلیگ شپ کے مقدموں میں اندر ہو جائیں گے۔

پیچھے رہ گئے مولانا فضل الرحمن‘ محمود خان اچکزئی اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی تو یہ چپ چاپ ملک سے باہر چلے جائیں گے یا پھر یہ بھی اندر ہو جائیں گے‘ ان گرفتاریوں کے بعد دونوں پارٹیوں کے پاس دو آپشن ہوں گے‘ یہ حکومت سے تعاون کریں‘ پارلیمنٹ کو قاعدے کے مطابق چلنے دیں‘ حکومتی بلوں کی حمایت کریں یا پھر حکومت جب بھی بل پاس کرانے لگے تو یہ واک آئوٹ کر کے پارلیمنٹ ہائوس کی کینٹین میں چلے جائیں اور بل پاس ہونے کے بعد واپس آ جائیں یا پھر ارلی الیکشن کے لیے تیار ہو جائیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔

میں نے کرسی پر کروٹ بدلی اور پھر ان سے پوچھا ’’ کیا عوام مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت‘ لاء اینڈ آرڈر کی دگرگوں صورتحال اور مس گورننس کے باوجود عمران خان کو ٹو تھرڈ میجارٹی دے دیں گے‘‘ صاحب نے سگار کا ایک اور کش لیا اور ناک سے دھواں نکال کر بولے ’’ہاں بڑی آسانی کے ساتھ‘ آپ کے تمام مخالف پہلوان جب اکھاڑ سے باہر ہوں گے اور جب فیصلہ کن قوتیں آپ کے ساتھ ہوں گی تو ٹو تھرڈ کیا آپ کو تھری تھرڈ میجارٹی بھی مل سکتی ہے اور عمران خان آسانی سے یہ حاصل کر لیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔

ملازم نے صاحب کی کافی کا کپ میز پر رکھ دیا‘ صاحب نے کپ اٹھایا‘ ناک کے قریب لا کر کافی کی خوشبو سونگھی‘ سرشار لہجے میں واہ واہ کیا‘ کافی کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف متوجہ ہو گئے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا عمران خان ٹوتھرڈ میجارٹی لے کر پرانے پاکستان کو نیا بنا دیں گے‘‘ صاحب نے بلند قہقہہ لگایا اور گردن نفی میں ہلا کر بولے ’’نہیں ہرگز نہیں‘ نیا تو دور پرانا پاکستان بھی مزید پھٹ جائے گا‘ عمران خان اپنی ناکامی سے پوری دنیا کو پریشان کر دیں گے‘ یہ اپنے تمام معاونین کے چھکے چھڑا دیں گے اور یہ مایوس ہو کر باہر چلے جائیں گے‘‘۔

میں نے حیرت سے پوچھا ’’وہ کیوں؟‘‘ صاحب نے کافی کا دوسرا گھونٹ بھرا اور بولے ’’اگر پتھر آپ کے راستے میں ہوں تو آپ اچھے جوتے پہن کر سفر جاری رکھ سکتے ہیں لیکن کنکر آپ کے جوتے کے اندر ہو تو سڑک یا راستہ خواہ کتنا ہی ہموار کیوں نہ ہو آپ چل نہیں پاتے‘ آپ سفر نہیں کر سکتے اور عمران خان کے راستے میں پتھر نہیں ہیں ‘ ان کے کنکر ان کے جوتے کے اندر ہیں اور یہ جب تک یہ کنکر نہیں نکالیں گے‘ یہ اس وقت تک سفر نہیں کر سکیں گے‘ خواہ یہ کتنے ہی ارلی الیکشن کرا لیں اور عوام خواہ انھیں کتنے ہی ووٹ دے دیں‘‘میں نے صاحب سے ہاتھ ملایا‘ سلام کیا اور باہر آ گیا‘ باہر سردیوں کی پہلی بارش شروع ہو چکی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے