حُسن و جمال کیا ہے؟

حُسن قد و قامت کی موزونیت اور کاملیت کو کہتے ہیں یعنی ہر عضو اپنی جگہ اتنا کامل و متوازن اور ہر جوڑ اپنے مقام پر اتنا مکمل و عمدہ ہو کہ وہاں سے اپنی نگاہیں پھیرنا اور نظریں ہٹانا مشکل ہو. ہر وہ روپ جو انسان کے فکر و نظر پر مجموعی لحاظ سے قابو پالے اسے حُسن کہتے ہیں. پس رنگ کی اچھائی، ظاہری نقشے کی عمدگی، مجموعہ قد کے تناسب، اعضاء کے جوڑ و بند درست ہونے اور اپنی جگہ موزوں ہونے کو حُسن کہتے ہیں. گویا ہر عضو اتنا کامل اور ہر جوڑ اتنا مناسب ہو کہ اس سے آگے کمال کا تصور نہ ہوسکتا ہو تو یہ حُسن کا اتنا ہی اعلیٰ درجہ ہوگا.

اصول یہ ہے کہ جیسا سانچہ ہوتا ہے ویسا ہی ڈھانچہ ہوتا ہے. سانچہ اگر کامل ہے تو جو چیز ڈھلے گے وہ بھی مکمل، خوبصورت اور عمدہ ہوگی اور سانچہ اگر ناقص ہے تو جو چیز ڈھلے گی وہ بھی نامکمل، بدصورت اور ادھوری ہوگی. کلام پاک کی آیت”لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“ میں انسانی تخلیق کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اسی عمدہ نکتے کی طرف لطیف اشارہ کیا گیا ہے، جس کا مطلب و مفہوم یہی ہے کہ "ہم نے انسان کو احسنِ تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا ہے.”

ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ انسانی ڈھانچہ مختلف مادی عناصر کا مجموعہ ہے. انسانی بدن اگر محض گوشت پر مشتمل ہوتی توجسم میں کوئی سختی ہوتی نہ تناؤ ہوتا بلکہ انسان کے لئے زمین سے اٹھنا بھی محال ہوتا اور اگر اسے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا تو بشر میں وہ زیبائی و رعنائی ہرگز نظر نہ آتی جو آدمیت کے ہر فرد کا خاصہ ہے، اس لئے ہڈیوں پر کمال عمدگی سے ایک خاص تناسب اور مناسب مقدار سے گوشت پوست چڑھا دیا گیا تاکہ قدوقامت میں غیرموزونیت اور بھداپن پیدا نہ ہو. اسی توازن اور کاملیت سے حُسن و جمال کا ایک عمدہ پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہکار وجود میں آیا جسے انسان کہتے ہیں.

انسان درحقیقت جسم اور روح کا مجموعہ ہے، جسم ظاہر کی صورت کو کہتے ہیں اور روح سے باطن کی دنیا مراد ہے. شمائل ظاہری اوصاف کو کہتے ہیں یعنی صورت جبکہ خصائل باطنی اوصاف کو کہا جاتا ہے یعنی سیرت. گویا انسان کے رنگ و روپ اور شکل و ڈھانچے کا نام صورت ہے جو انسانی تعارف کے اسباب میں سے ہیں جبکہ اخلاق و کردار اور عادات و کمالات کا نام سیرت ہے جو انسان کی تعریف کے اسباب میں سے ہیں. حُسن شمائل کا نام ہے اور جمال شمائل و خصائل کے مجموعے کو کہتے ہیں. اس تعریف کے لحاظ سے حُسن صرف جسم کی دلکشی و رعنائی ہے جبکہ جمال جسم اور روح دونوں کی خوبصورتی کا نام ہے.

حُسن لطافت کا نام ہے، لطافت کا دوسرا نام نزاکت ہے، نزاکت نفاست کے مترادف ہے، نفاست سے نظافت مراد ہے، نظافت طہارت کو کہتے ہیں. جہاں طہارت موجود ہو وہاں نزہت بھی ہوتی ہے اور طراوت بھی. جمال ان تمام محاسن کا مجموعہ ہے. پس حُسن صرف صورت کی خوبی، عمدگی اور رونق ہے جبکہ جمال صورت و سیرت دونوں کی کمالِ خوبی، کمالِ عمدگی اور کمالِ رونق کا نام ہے. گویا حُسن کہتے ہیں جسم کی خوبصورتی اور حُسنِ صورت کو یعنی شکل و صورت، رنگ و روپ اور چال ڈھال کا اچھا ہونا جبکہ جمال کہتے ہیں باطن کی رونق اور جمالِ ذات کو یعنی ذات کا بالکل کامل و موزوں اور باطن کا عمدہ و مناسب ہونا.

حُسن کی ایک تعبیر عمدگی ہے. حُسنِ تدبیر یعنی عمدہ تدبیر اور حُسنِ بیان یعنی بیان کی عمدگی کا یہی مطلب ہے، حُسن کی ایک مراد نیکی بھی ہے حُسنِ ظن یعنی نیک گمان سے یہی مراد ہے. حُسن صفائی کا نام ہے حُسنِ معاملہ یعنی لین دین کی صفائی کا یہی مفہوم نکلتا ہے. حُسن خوبی کا نام ہے حُسنِ انتظام یعنی انتظام کی خوبی کا یہی مطلب لیا جاتا ہے. حُسن بہتری کا نام ہے حُسنِ اتفاق یعنی بہتر موقع سے یہی مراد ہے. حُسنِ اچھائی کا نام بھی ہے حُسن سلوک یعنی اچھا رویہ اور حُسنِ طلب یعنی مانگنے کا اچھا پیرایہ یہی مفہوم دیتا ہے.

قاری محمد طیب قاسمی صاحب کے بقول جمال اپنی معنویت اور ہمہ گیریت کے لحاظ سے حُسن پر فائق ہے. یہی وجہ ہے کہ خود حق تعالیٰ شانہ کے لئے کلامِ نبوی میں جمیل کا لفظ ارشاد فرمایا ہے حسین کا نہیں. حدیث پاک میں ”ان اللہ جمیل یحب الجمال“ وارد ہوا ہے یعنی ”اللہ تعالیٰ جمیل ہیں، جمال والے کو پسند کرتے ہیں“، یہ نہیں فرمایا گیا کہ ”إن اللہ حسین و یحب الحُسن“ کہ اللہ تعالیٰ حسین ہیں اور حُسن والے کو پسند کرتے ہیں. اس سے ثابت ہوا کہ جمال کا درجہ حُسن سے برتر و بالا ہے.

عموماً ہمارے ہاں سرخ و سفید رنگ کو خوبصورتی اور دلکشی کا معیار جبکہ سیاہ و خاکی رنگ کو بدصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ تصور ہی سراسر غلط ہے. رنگ کا حُسن سے تعلق ضرور ہوتا ہے مگر حُسن کا تعلق صرف کسی خاص رنگ سے ہرگز نہیں. آفتاب کی زرد چمک اور ماہتاب کی سفید چاندنی بلاشبہ بھلی لگتی ہے مگر چہرے پر برص کے سفید داغ اور آنکھوں میں یرقان کے زرد سائے بھلا کسے اچھے لگتے ہیں. کسی آدمی کا چہرہ زرد پڑ جائے تو وحشت سی محسوس ہوتی ہے اور سرخ پڑ جائے تو دہشت کا احساس ہوتا ہے. گلاب اور انار جتنے سُرخ ہوں اتنے ہی دلکش نظر آتے ہیں مگر کسی گل رخ میں سرخ رنگت کا تناسب گلاب اور انار کے برابر ہوجائے تو کوئی اس رخ کی طرف رخ ہی نہ کرے. سیاہ چہرہ اور کالا مہرہ بلاشبہ بدصورت نظر آتا ہے مگر کالے چشمان کی چمک اور سیاہ زلفوں کی دمک کے حُسن سے اختلاف کی جسارت کون کرے گا.

غذا میں حُسن رنگت اور جمال رنگت و ذائقے دونوں کا مجموعہ ہے. کلام میں حُسن ادبیت ہے اور جمال ادبیت و معنویت دونوں کا مجموعہ ہے. افکار میں حُسن ذہنیت ہے اور جمال ذہنیت و شعور دونوں کا جوڑ ہے. نظر میں حُسن بصارت ہے اور جمال حُسنِ بصارت و حُسنِ بصیرت دونوں کا حسین سنگم ہے. گفتار میں حُسنِ صوتیت جبکہ جمال حُسنِ صوتیت اور حُسنِ پیغام دونوں کا ملاپ ہے. جمال در حقیقت حُسنِ افکار، حُسنِ گفتار اور حُسنِ کردار کے مجموعے کا نام ہے اس کو ہم حُسنِ خیال، حُسنِ اقوال اور حُسنِ اعمال کے مرکب سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں. گویا جمال حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کا حسین سنگم ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے