خیال – انسان یا عورت

ایک طرف شور و غوغاں، اک طرف آہ و فغاں، ایک طرف دکاں ، ایک طرف طوفاں ، اک طرف مسجد، اک طرف میکدا ۔۔۔ میں کس طرف دیکھوں، میں کس کا ساتھ دوں ۔

ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ہر نئی جدت نے دو نئی پارٹیاں تخلیق کیں، قدامت پسند اور جدت پسند، جدت پسند ماڈرن کہلائے، اور قدامت پسندی کے پلڑے میں یہ سیاسی سائنسدان مذہبی طبقے کو رکھتے ہیں، اور نکلنے بھی نہیں دیتے ۔
قدامت پسند ٹی وی کو فحاشی کا بم سمجھ کر برا کہتے ہیں، موٹر سائیکل شیطانی چرخا اور جینز فرنگیوں کا لباس، یعنی جنگ آزادی کی یادیں تازہ ۔

ماڈرن طبقہ، پڑھا لکھا، مہذب بھی گردانا جاتا ہے، لیکن یقین کیجئیے صرف گردانا جاتا ہے ۔

جدت پسند کا پسندیدہ اور قدامت پسندوں کا نا پسندیدہ موضوع ہے ،،، عورت

1400 سال پہلے رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لئے چادر بچھائی تو صدیوں سے پستی کا شکار خواتین گھروں کی مالکن بنیں، حقوق کی تعریف کی۔ عزت، جائیداد میں حصہ، وراثت دی ۔ حق مہر دیا، نان نفقہ مقرر کیا۔ عورت کو نکاح کا حق دیا۔ اپنے شوہر سے باعزت طریقے سے علیحدگی کا اختیار دیا ۔ اور سب سے بڑی بات اسلام نے بتایا کہ جنت سے نکالتے ہی آدم کے ساتھ ان کی اولاد کے لیے جنت میں واپسی کا راستہ بھی دے دیا۔ حوا کے پیروں تلے، ہابیل، قابیل اور شیت علیہ السلام سمیت تمام اولاد کی جنت ماں کے قدموں تلے رکھی ۔

لیکن اب دیکھیں ۔۔۔ ہوا کیا ۔۔۔ اولاد آدم بڑھتے بڑھتے پوری دنیا پر چھا گئی ۔۔۔ ہزاروں نفوس، اربوں کی ابادی بن گئے ۔۔۔ جھگیاں، ٹاورز، صحرا شہروں میں بدل گئے ۔ لیکن حقوق کی تقسیم جنسوں میں ڈال دی۔

قدامت پسندوں نے عورت کو اپنا مال سمجھا، زمانہ جہالت میں بکنے والی لونڈیاں، اب کرایے پر دستیاب ہونے لگیں ۔۔۔ اور یہ ماننے والوں نے مانا کہ مرد نے عورت کو غلام بنا رکھا ہے جسے پدریانہ نظام کہا یا مذہبی جنونی، انتہا پسند۔

پھر کچھ مرد اور کچھ عورتیں، خواتین کے حقوق کے لئے کھڑی ہوئیں ۔۔۔ بیسویں صدی کے شروع میں فیمنزم نامی اس وباء نے مغرب سے پھوٹ کر سارا نیلا گولہ نگل لیا ۔ امریکہ میں ووٹ کے حق سے محروم، خواتین کو اسی وباء نے 1920 میں ووٹ کا حق دلایا ۔ اسی وباء نے جائیداد کے حقوق اور سیاست میں خواتین کا حصہ مانگا، اور کافی حد تک پا بھی لیا۔ اس کے خلاف تو قدامت پسند تھے، اور قدامت پسند تو مذہبی ہوتے ہیں ۔۔۔ اب یہ بنا ٹرائیکا، اسلام، قدامت پسند اور تیسری طرف خواتین کے حقوق ۔ اسلام قدامت پسندوں اور جدت پسندوں سے الگ کھڑا ہے ۔

عورتوں کو ستی کریں، یا غیرت کے نام پر قتل، زبردستی نکاح کریں یا تعلیم سے محروم کریں، اسلام تمام اصولوں کے خلاف کھڑا نظر ایا، قدامت پسندی حق میں، اور خواتین کے حقوق مانگنے والے، آج تک مخمصے کا شکار ہیں، کہ وہ حقوق مانگ رہے ہیں یا مادر پدر آزادی ۔

بات پھر دور جائے گی، انسانوں کی ضرورت ہے کھانا پینا، اور سب سے پہلے سانس لینا، یہ انسانوں کی ضرورت ہے، مردوں کی یا عورت کی نہیں، حقوق ایک مخلوق کے ہیں، کا کہ ایک جنس کے، اور مردوں اور عورتوں کے بنیادی حقوق میں فرق کرنے والے تفرقہ ڈالنے والے ہیں، علم خواتین کے لئے الگ، مردوں کے لئے الگ، قطار مردوں کی عورتوں کی علیحدہ، اسی طرح، بڑا، چھوٹا، امیر غریب کے فرق بھی قائم کئے، اور عورت اور مرد کو بھی مقابلے میں کھڑا کردیا۔ عورت سے خوف کھانے والا مرد، اسے انسان سمجھنا چھوڑ دیتا ہے اور حق غصب کرلیتا ہے، اور عورت مرد سے خوف کھا کر، ہر مرد کو غاصب سمجھتی ہے، اور انسان غاصب نہیں ہوسکتا، انسان نام ہی اعتدال کا ہے، خوراک اور حقوق چھیننے کےلئے دھونس، زور اور طاقت کا استعمال جانوروں کا شیوا ہے ۔

عورت مرد کے لئے برابری حقوق میں ماننے والے زمہ داریوں میں بھی برابری مانیں، اسلام میں تو برابری ہے، زنا کرنے والوں پر حد ہے، مرد اور عورت پر یکساں، کوئی تفریق نہیں ۔

جیسے کہا نا کہ حقوق انسانوں اور جانوروں کے ہوتے ہیں ۔ لیکن اب قدامت پسند اور یہ ماڈرنسٹ ایک ساتھ مل چکے ہیں، عورت کو انسان ماننے کو تیار نہیں ۔

قدامت پسند عورت کو ملکیت سمجھتے ہیں، تو جدت پسند عورت کو نمائش کی کوئی چیز سمجھتے ہیں، ان کا روزگار ہی شاید عورت ہے ۔ انہی کی کھینچی لکیر نے عورت کو تفریق کرکے تماشا بنایا ہے، جنہیں ظلم کا مطلب نہیں معلوم ، وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، ایک جنسی تشدد کا شکار لڑکی ان کا ٹرمپ کارڈ ہے، جس کی تشہیر، اس کے خاندان کی تشہیر کرکے دنیا کو دکھانا لازمی ہے، خاموشی سے انصاف نہیں ہوسکتا، گالی کے بجائے شعور اجاگر نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہی ماڈرنسٹ اس تشدد کا شکار لڑکی کو اپنی بہو بنانا پسند نہیں کریں گے، اس کے خاندان کی عزت کا جنازہ نکال کر، مٹی بھی خود ڈالیں گے، اور منہ پر بھی سب سے پہلے تھوکیں گے ۔

کبھی حوا کی بیٹیاں ظلم کی تصویر، کبھی حقوق کے لئے روتی، قدامت پسند تو ٹی وی سے بھاگ گئے، جدت پسندوں نے اس کی آؤ بھگت کی ،،، اور اب یہ ان کے گھر کی باندی ۔۔۔ اور یقین جانو ،،، جو ریٹنگ روتی عورت لا سکتی ہے وہ روتا مرد تو کیا، مرتا مرد بھی نہیں لاسکتا۔۔۔ سچ کہہ رہا ہوں، آزما کے دیکھ لو ۔

خواتین کے حقوق اور خواتین پر مظالم کے درمیان ۔۔۔ توازن کون قائم کرے گا ؟ مظالم والے جاہل ، اور یہ "آزادی” والے پڑھے لکھے جاہل ہیں ۔۔۔ اور یہ دونوں قسم کے قدامت پسند عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، تو پھر کہیں یوم احتساب، اللہ سے حساب کے لئے الگ لائن کا مطالبہ نہ کردیں ، کیونکہ وہ تو سب کو ابن آدم کہتا ہے ۔۔۔ آدم کے بیٹو، بیٹیو ۔۔۔ یہ تو تمہاری تقسیم ہے ماڈرنزم کہ نام پر یا قدامت پسندی کے نام پر ،،، سو حقوق میں کوئی تفریق نہیں ۔۔۔ حقوق انسانوں کے اور جانوروں کے ہوتے ہیں ۔۔۔ سمجھدار نہیں ہو تو واقعی پوگو دیکھو !

نظروں میں حیا، اور پردہ ماڈرنسٹ کا سب سے پسندیدہ ہتھیار ہے، لیکن بتاؤ کہیں عورت کا پردہ لکھا ہو، مرد کا نہیں، کہیں مرد کی نظروں کی حیا لکھی ہو عورت کی نہیں، اسلام کو پڑھو تو۔ ستر مرد کا بھی، عورت کا بھی، حیا عورت کے لئے بھی مرد کے لئے بھی ضروری۔ سو پھر بحث کہاں ہے۔ ؟

بحث اس کاروبار میں ہے جس سے ماڈرنسٹ، قدامت پسندوں کی مدد سے، اور قدامت پسند ماڈرنسٹ طبقے کی مدد سے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں ۔ عورت کو ملکیت بتا کر جائیداد میں حق مار لینے، پنچائیت میں بیٹھ کر "سزا سب کے لئے” کے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے، ایک عورت سے زیادتی کا بدلہ کاروکاری کی صورت میں، شوہر مر جائے تو بیوہ کو پہلے ستی کرتے رہے، اب زندہ درگور نہیں کرتے، زندہ لاش بنا کر رکھ دیتے ہیں ۔ غیرت سمجھ کر قتل کرتے ہیں، اور اسے عین اسلامی سمجھتے ہیں، لیکن نکاح سے پہلے لڑکی سے مرضی نہیں پوچھتے کیونکہ اسلام مکمل پڑھا نہیں نا۔ ضرورت کے تحت پڑھا ہے۔

انہیں دونوں بہن بھائیوں، ماڈرنزم اور قدامت پسندی نے ہی تعلیم میں تفریق کر رکھی ہے ، مختصراً یہ کہ اسلام یعنی ضابطہ حیات نا کہ جنت میں جانے کے طریقے، اسے کہتے ہیں دینی تعلیم اور پیشہ ور تعلیم کو دنیاوی تعلیم، دنیا میں رہنے کا ہر ڈھنگ سکھانے والے مذہب کی تعلیم کو محدود کردیا قدامت پسندوں نے، اور پیشہ ور تعلیم کو دنیاوی تعلیم بنا کر گلے سے لگا لیا قدامت پسندوں نے۔

یہی دونوں وجہ ہیں لڑائی کی، اسلام کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اسلام حقوق میں تفریق نہیں کرتا، ہاں اتنی تفریق ضرور ہے کہ، انسانوں کی ایک قسم یعنی "خواتین” کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیتا ہے، خطبہ حجتہ الوداع پڑھ لیا جائے، اور مردوں کے امتیازی سلوک میں "اگر” کے لفظ کے ساتھ بیان کیا ہے، مفہوم کچھ یوں ہے کہ بیوی کو شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جاتا اگر غیر الا کو سجدہ جائز ہوتا۔ بس اور کوئی امتیاز نہیں، عورت کو مرد کی غیرت کہا یا نہیں، ذمہ داری ضرور کہا، بیٹییوں کی اچھی پرورش پر جنت، بیوی کی اچھی خاطرداری پر جنت، ماں کے پیر دبانے پر جنت، بہن کے حقوق دینے پر جنت، جنت تو یوں بانٹ دی اسلام نے، اور عورت کو جنت چاہیے تو بھی اسان، شوہر کی اعطاعت، بھائی کی محبت، باپ کی خدمت، بیٹے کے لئے دعا ۔۔۔ اب میرا قدامت پسندوں اور جدت کے حامیوں سے اعتراض یہی ہے کہ، ایک مردوں کی سبقت، دوسرے عورتوں کی سبقت کو لڑنے والے ، ان لکھی باتوں میں سے اپنا مطلب لیتے ہیں ، آدھی بات پڑھتے ہیں، کاش پوری بات کہیں، پوری بات سنیں، اسلام کا سب سے بڑا اصول اپنائیں ۔۔۔ اعتدال ۔

اعتدال میں رہیں، دکانیں بند کریں اور عورت کو ماں، بہن، بیٹی، اور کائنات کے رنگوں سے نکال کر صرف انسان ہی سمجھ لیں، بہت ہے، کیونکہ جنت اور دوزخ اور یوم قیامت جنس نہیں اعمال پرکھے جائیں گے، اور اسی لئے سزا بھی عورت اور مرد کو نہیں مجرم کو دیں، انعام بھی اچھی کارکردگی کو دیں، عورت مرد کو نہیں ۔۔۔ تعلیم اپنے بچوں کو دیں، عورت مرد کو نہیں، اور ہاں دست بستہ! شادی اور تعلق میں اور کچھ دیکھیں نہ دیکھیں، جنس ضرور دیکھ لیں کیونکہ اس کے علاؤہ جنس کی اہمیت کہیں نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے