دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے!

چند روز سے انٹرنیشنل میڈیا میں پاک بھارت کشیدگی کے باعث ایٹمی دھماکوں کی خبریں چل رہی تھیں‘دوسری طرف بابری مسجد کا تنازع بھی زور پکڑتاجا رہا تھا۔ کیس بھارتی سپریم کورٹ میں لگا ہوا ہے۔ فیصلے کا سب کو بے صبری کے ساتھ انتظار ہے جبکہ سپریم کورٹ کی خواہش ہے کہ کسی طرح بابری مسجد اور رام مندر معاملے میں مصالحت ہو جائے تاکہ وہ آزمائش سے بچ جائے۔ اس معاملے میں عدلیہ پر کڑا دبائو ہے۔ وہ اگر بابری مسجد کے حق میں فیصلہ سنا دیتی ہے تو ہندو انتہا پسند طوفان برپا کر دیں گے۔ ویسے بھی بھارت میں الیکشن کا دور دورہ ہے‘ متعصب ہندوئوںکو اپنی دکانداری چمکانے کاموقع مل جائے گا۔

پہلے تو بابری مسجد اور رام مندر کے عدالتی پس منظر کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سارا ماجرا کیاہے؟ ثالثی کی بابت پہلے تو بھارتی سپریم کورٹ پانچ مارچ کو سماعت کرنے والی تھی مگر نجانے کیوں وہ چھ مارچ تک ٹل گئی اور اس دن بھی سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بھارتی چیف جسٹس‘ رنجن گوگوئی نے تمام فریقوں سے سمجھوتے پر بات چیت کے لئے‘ کچھ ثالثوں کے ناموں کا مطالبہ کرنے کے بعد کہا کہ وہ اپنا فیصلہ بہت جلد سنائیں گے۔ دوران سماعت بابری مسجد کے وکیل راجیو دھون نے قانونی نقطہ نظر سے آربیٹریشن اور میڈیئیشن کے فرق کو واضح کرنے کے بعد (آربیٹریشن میں عدالت کا اتفاق ضروری ہے جبکہ میڈیئیشن میں ایسا نہیں) مسلم فریق کی جانب سے ثالثی پر رضا مندی کااظہار کیا گیا۔

بابری مسجد اور رام مندر تنازع میں اس وقت پانچ فریق ہیں۔ ان میں تین ہند و ا ور دو مسلمان ہیں۔ اتفاق سے تینوں ہندو فریق‘ مسلمانوں کے خلاف متحد مگر باہم مختلف ہیں‘ اس لئے کہ ان میں سے ہر کوئی بلاشرکت غیرے رام مندر کی متوقع آمدن کا خواہش مند ہے۔اس کے برعکس دونوں مسلمان فریقوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ہندو اور مسلمان فریقین کے درمیان صرف اراضی کی دعویداری کا اختلاف نہیں ہے بلکہ مسلمان اس کو زمین کی ملکیت کا مقدمہ مانتے ہیں جبکہ ہندو ئوں کے لئے عقیدے کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہندو فریق کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عقیدے کی بات کا فیصلہ کرنا‘ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

باہمی مفاہمت کے پیش نظر ‘ کانچی کام کوٹی کے شنکر آچاریہ نے 2003ء میں گفت وشنید کا آغاز کیا لیکن درمیان میں سنگھ نے محسوس کیا کہ یہ سونے کے ووٹ دینے والی مرغی اگر ذبح ہو گئی تو بوقت ضرورت اس کا استعمال کر کے انتخاب جیتنے کا نادر موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لئے اس نے گفتگو سبو تاژ کرنے کی کامیاب شرارت کی۔سنگھ کی اکساہٹ پر شنکر نے ایک خط بھی لکھا‘ جس میں درج تھا کہ مسلمان دیرپا باہمی خیر سگالی کے لئے ایودھیا کے علاوہ کاشی اور متھرا سے بھی سبکدوش ہو جائیں ۔ اس یک طرفہ پیش کش کو مسترد ہونا تھا اور ہو گئی ۔ اس کے بعد بھی ہندوئوں کی جانب سے اس طرح کی کوشش ہوتی رہی جس کی تازہ مثال شری روی شنکر اور مولانا سلمان ندوی کی سعیٔ لاحاصل تھی‘ جو حسب ِتوقع ناکام ہو گئی۔اس موقع پر مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی مذموم کوشش بھی کی گئی۔

سنگھ خاندان نے اس بار الیکشن جیتنے کے لئے پھر سے رام مندر کا مسئلہ اٹھایا اور عدالت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی لیکن جج صاحب نے یہ کہہ کر جھڑک پلادی کہ بابری مسجد اور رام مندر ہماری ترجیحات نہیں ہیں‘ اس لئے جلد بازی نہ کی جائے۔ اس کے بعد عوام کو اکسایا کیا گیا اور مسلسل اکسایا گیا‘ حکومت پر دبائو ڈال کر قانون سازی کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن بھارتی عوام نے انتہا پسند ہندوئوں کے ایجنڈے پر کان نہ دھرے تو مودی سرکار کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ مودی نے محسوس کیا کہ رافیل طیاروں کی کرپشن کا مقابلہ رام بان(تیر) سے نہیں کیا جا سکتا۔

مودی نے کمال ہوشیاری سے اپنے ایک انٹرویو میں عدالتی کارروائی مکمل ہونے سے قبل‘ قانون بنانے کے امکانات کو خارج از امکان قرار دے دیا‘ تاکہ ہمدردی کا ووٹ ان کے کھاتے میں پڑجائے۔اگر قانون بن بھی جاتا تو عدالت اس پر قدغن لگا دیتی۔ سنگھ کا دماغ جب درست ہوا تو اس نے رام مندر کے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا اور مقدمے کی سماعت کچھوے کی رفتار سے شروع ہوئی جبکہ ہندو فریق خرگوش کی طرح اچھل کود کر‘ منزل پر پہنچنا چاہتے تھے۔ پہلی ہی سماعت پر بھارتی سپریم کورٹ نے ثالثی کی تجویز رکھی تو دونوں فریقوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ ہندو فریق‘ جس کو جلدی پڑی ہوئی تھی‘ نے کہا کہ یہ کوشش بے فائدہ ہے۔

ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہو چکی ہیں‘ اس لئے جلد از جلد عدالت اس معاملے کو نمٹائے۔ ہندو بنیاچاہتا تھا کہ الیکشن سے قبل فیصلہ آئے کیونکہ وہ ہر صورت میں اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس کے برعکس مسلمان اور عدالت دونوں ہی اس فیصلے کو الیکشن کے بعدچاہتے تھے۔ ان دونوں کو غالباً یہی توقع تھی کہ مودی سرکار بدل جائے گی اور نئی حکومت کا دبائو نسبتاً کم ہو گا۔اس صورت حال میں انصاف پر مبنی فیصلہ کرنا آسان ہو گا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا جھکائو کس طرف تھا؟اسی تناظر میں مسلمان فریقین نے ثالثی کی تجویز پر اتفاق کر لیا جبکہ ہندو فریق نے مخالفت کی۔ مسلمانوں کے دوسرے وکیل دشنیت نے جب عدالت سے دستاویزات کا ترجمہ جانچنے کے لئے وقت مانگا تو ہندو فریق نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ترجمہ تو ایک عرصے سے ہوا پڑا ہے۔ اس سے قبل اس کا مطالعہ کیوں نہیں کیا گیا لیکن ہندو وکیل کی دال نہ گلی اور بھارتی چیف جسٹس‘ رنجن گوگوئی نے پوچھا کہ اس کام کے لئے کتنا وقت درکا ہے؟ دشنیت نے32ہزار صفحات پر نظر ثانی کے لئے قریباً بارہ ہفتوں کی مہلت طلب کی‘ جو معقول ہے۔ عدالت نے آٹھ ہفتوں کا وقت دے دیا اور اس طرح سارا معاملہ دو ماہ کے لئے ٹل گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے