گزشتہ دنوں انڈیا میں پے درپے انتہا پسندی کے واقعات رونما ہوئے جن میں پاکستانی ایمپائیر علیم ڈار کے خلاف ہندو انتہا پسندتنظیم شیو سینا کے غنڈوں کا شور شرابا،
خورشید قصوری کی نئی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر پبلشر اور مصنف کے منہ پر کالی سیاہی پھینکنا،
کشمیر کے مسلم ایم ایل اے کے چہرے کا کالا کرنا اور پھر ابھی حالیہ پی سی بی کے چئیر مین شہریار خان کی انڈیا بی سی سی آئی کے چیئرمین سے ملاقات کی آمد پر شیوسینا کے غنڈوں کی غنڈہ گردی کی بنا پر ملاقات کینسل ہونا
اور پھر گزشتہ روز پاکستانی اداکار فواد خان کے خلاف مظاہرہ کرنا،گزشتہ کچھ دنوں ہی میں ہونے والے پے درپے انتہاپسندی کے واقعات نے بھارت کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے پر پانی پھیر دیا،
بھارتی حکومت کے پس پشت انتہاپسندبے نقاب ہوئے،دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں بھی اس درجہ کی انتہا نہیں پائی جاتی،
پاکستان کے خلاف انتہا پسندانہ عزائم رکھنے والا بھارتی میڈیا تک شیوسینا کی غنڈہ گردی کے خلاف چیخ چیخ کے گریہ کرتے نظر آرہے ہیں،
بہرکیف ان واقعات سے دلبرداشتہ ایک بھارتی ڈائیریکٹر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ رام سبرامانیم نے شیوسینا کی انتہاپسندی کے خلاف آگاہی مہم کی نیت سے اپنی پروفائل پکچر ایک کاغذ پر لکھے چند لائن پر مشتل نوٹس کے ساتھ پوسٹ کردی اور اس مہم کا ہیش ٹیگ #ProfileForPeace اور #speakupمنتخب کیا،
اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگئی،اور پھر مزید کچھ گھنٹوں میں بھارتیوں نے اپنی پروفائل فار پیس والی پکچر کو پروفائل بنانا شروع کردیا،
ProfileForPeace کا ہیش ٹیگ ہزاروں لاکھوں پر ٹیگ ہونے لگا ٹویٹر کا ٹاپ ٹرینڈ میں بھی شامل ہوگیا،
اور اس طرح کچھ گھنٹوں میں یہ پوسٹ کمپین اور پھر ایک تحریک کی شکل اختیار کرنے لگ گئی،بھارتی معروف شخصیات و فنکاروں سے لے کر بھارت کے ہر علاقے سے نوجوان لڑکے و لڑکیاں اس میں شامل ہونا شروع ہوگئے،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسی رات یہ تحریک پاکستان میں بھی داخل ہوگئی اور پاکستان سے بھی پروفائل فار پیس کے پیغام کے نوٹس کے ساتھ پروفائل پکچر اپلوڈ ہونا شروع ہوگئی،
پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے بھرپور اس کمپین کو پاکستان میں بھی وائرل کیا اور پھر انٹرنیشنل میڈیا اور لوکل میڈیا تک نے اس کو کور کیا چند گھنٹوں میں وائرل ہونے والی یہ کمپین کیسے تحریک اختیار کرگئی اس کا اندازہ رام سبرامانیم کو بھی نہیں تھا،
سبرامانیم کہتے ہیں کہ میراماننا تھا کہ یہ انتہا پسند بہت کم تعداد میں ہیں جنہوں نے اکثریت کو ہائی جیک کررکھا ہے،
وہ کہتے ہیں کہ مجھے دنیا کو بتانا تھا کہ یہ انتہا پسند بہت معمولی تعداد میں ہیں جو کہ بھارتی عوام نے توقعات سے زیادہ ثابت کرکے دیکھایا،
پاکستانی بلاگرز و سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کا بھی یہی کہنا تھا کہ ایسی ہی کچھ صورتحال یہاں بھی ہے مگر ایسی بری نہیں،
پاکستان کے معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ریحان اللہ والا جن کا بڑا کردار ہے اس کمپین کو پاکستان میں وائرل کرنے کا،
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کو تعلیم ،بجلی،صاف پانی کی ضرورت ہے،دونوں ملکوں کو کرپشن اور انتہا پسندی کا سامنا ہے تو ایسی صورت میں ہمیں جنگ نہیں بلکہ ان اہم مسائل کی طرف توجہ کی ضرورت ہے،
بہرحال یہ کمپین جو کہ ایک مکمل تحریک کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے،
بھارت اور پاکستان کی نئی نسل کی سوچ وفکر کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا جارہا ہے،جس سے قوی امید کی جاسکتی ہے مستقبل قریب میں بھارت سے کشمیر سمیت دیگر بہت سے مسائل پر بات چیت کی بہت جہتیں دریافت ہونگی جو کہ ان دونوں ملکوں کی نئی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضامن ہونگی.