سوشل میڈیا ایجاد ہی شاید پھکڑپن کو فروغ دینے کی خاطر ہوا ہے۔ اس پر حاوی یاوہ گوئی سے شاذہی لطف اٹھایا۔ زیادہ توجہ ہمیشہ اس انتشارپر مبذول رہی جو اندھی نفرت وعقیدت میں مبتلا ہوئے لوگ دُنیا بھر میں فیس بک یا ٹویٹر کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔یہ کالم لکھنے سے قبل مگر سوشل میڈیا پر نظر ڈالی تو ہنسی آگئی۔ کسی ظالم نے ’’تجزیہ‘‘ کیا تھا کہ فیاض الحسن چوہان صاحب کے استعفیٰ کی وجہ سے سیاسی بیانات کی گرماگرمی کے حوالے سے جو ’’خلائ‘‘ پیدا ہوا تھا اسے اسد عمر اور وزیر اعظم صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کے خلاف دئیے بیانات کے ذریعے ’’پُر‘‘ کردیا ہے۔تھوڑی دیر کو اس فقرے سے لطف اندوز ہونے کے بعد مگر سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو بلاول بھٹو زرداری کو طنز نہیں بلکہ تضحیک کا نشانہ بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں فیصل واوڈا کی وجہ سے اُٹھے تنازعے پر مٹی ڈالنے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جو اں سال رہ نما نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ حکومت کو اس کی وجہ سے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔
معاملہ اگر بڑھ جاتا۔ بلاول بھٹو زرداری خود کو اس قضیے سے لاتعلق کرلیتے تو فیصل واوڈا 2019کے زاہد حامد بن جاتے۔ان دنوں کی جانب لوٹنے کے امکانات بھی ٹھوس صورتوں میں موجود تھے جب مذہبی جذبات سے مشتعل کئے افراد نے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر لاہور کے ایک مدرسے میں جوتا اچھالنے کی کوشش کی تھی۔ خواجہ آصف پر سیالکوٹ کے ایک جلسے میں سیاہی پھینکی گئی۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی عدم موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت بہت شدت سے جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے چند اراکین کے ساتھ مل کر اس بات پر تلی بیٹھی تھی کہ اس وقت تک قومی اسمبلی کی معمول کی کارروائی چلنے نہیں د ی جائے گی جب تک فیصل واوڈا کے خلاف اس کے فلور سے ’’مذمتی‘‘ قرارداد پیش نہ ہو۔
یہ قرار داد پیش ہوجاتی تو اپوزیشن کے بنچوں سے اس کی حمایت میں دھواں دھار تقاریر ہوتیں۔ ان تقاریر کی بدولت عوامی سطح پر اس نوعیت کا طیش پھیل سکتا تھا جس کا تذکرہ میں ابتدائی کلمات میں کرچکا ہوں۔بلاول بھٹو زرداری نے مگر بہت خلوص اور استقلال سے فیصل واوڈا کے چند ریمارکس کی وجہ سے اُٹھے قضیے کو بھڑکانے سے ا نکار کردیا۔ گزشتہ بدھ کے روز کئی گھنٹے انہوں نے اپوزیشن کے ارکان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر وہ فیصل واوڈا کے معاملے پر مذمتی قرار داد پیش کرنے پر بضد رہے تو حکومت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اسدعمر کی جانب سے پیش ہوئے اس منی بجٹ کو منظور کروالے گی جو موصوف نے جنوری کے آخری عشرے میں متعارف کروایا تھا۔اپوزیشن کی جانب یہ بجٹ کسی بحث کے بغیر منظور کروانے کی سہولت فراہم کرنا سیاسی اعتبارسے غیر ذمہ دارانہ اقدام ہوگا۔ وہ اپنی کاوشوں میں کامیاب رہے۔
بدھ کی شام تمام اپوزیشن ’’بجٹ اجلاس‘‘ میں شرکت کو آمادہ ہوگئی۔ اس سے قبل مسلسل دو روز تک فیصل واوڈا کی وجہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس خوفزدہ عجلت میں بغیر کسی کارروائی کے گھنٹوں کے انتظار کے بعد ملتوی ہوتا رہا۔
شہباز شریف کی عدم موجودگی میں بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت کے سربراہ کی حیثیت میں ’’منی بجٹ‘‘ پر بحث کا آغاز کیا۔ ان کی تقریر کا فوکس مگر پلوامہ واقعہ کے بعد خوفناک حد تک بڑھی پاک-بھارت کشیدگی پہ رہا۔
اس ضمن میں بھی انہوں نے اعتراض مگر اس نکتے کے ذریعے اٹھایا کہ پاکستان کی سرحد میں گرائے بھارتی مگ طیارے کے پائلٹ کو وزیر اعظم نے بین الاقوامی اداروں یا پاک-بھارت کشیدگی کو کم کرنے میں مصروف عالمی رہ نمائوں سے کوئی ٹھوس یقین دہانیاں حاصل کئے بغیر رہا کرنے کا حکم کیوں صادر کیا۔ان کے فراخدلانہ فیصلے کا بھارت سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں آیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا سب سے ’’تکلیف دہ‘‘ حصہ شاید وہ طنزیہ کلمات تھے جو انہوں نے حکومت کی جانب سے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے ’’دہشت گرد‘‘ ٹھہرائی تنظیموں کے خلاف لئے اقدامات کے ضمن میں ادا کئے۔اس حوالے سے طنز کے تیر برساتے ہوئے بھی مگر وہ انگریزی زبان کی وہ شائستگی برقرار رکھے رہے جو پارلیمانی مباحث کے دوران اپنائی جاتی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اٹھائے نکات کا میری دانست میں مؤثر جواب دیا۔ ان کی جوابی تقریر کا اصل نشانہ ا گرچہ پاکستان مسلم لیگ (نون) تھی جس کی حکومت کوانہوں نے 2014میں ’’قومی اتفاقِ رائے‘‘ سے بنائے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔شاہ محمود قریشی کی اس تقریر کے بعد اسد عمر کو ہرگز ضرورت نہ تھی کہ وہ بلاول کے نام میں بھٹو کے لاحقے پر سوال اٹھاتے۔ان کی جانب سے انگریزی میں تقریر کئے جانے پر نکتہ چینی کرتے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو ان کی ’’اوقات‘‘ یاد دلانے کے لئے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والا ’’نرکا بچہ‘‘ دکھاتے جس نے لیاری کی ایک سیٹ پر جولائی 2018کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو ہرایا تھا۔
وزیر اعظم کے لئے شاید اسد عمر کی مذکورہ تقریر بھی کافی نہیں تھی۔قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوجانے کے بعد وہ تھر پار کر گئے تو وہاں بلاول کے نام کے ساتھ ’’بھٹو‘‘ لاحقے پر اعتراض کو دہراتے رہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی ’’انگریزی‘‘ بھی تضحیک کا نشانہ بنی۔’’نرکا بچہ‘‘ اور انگریزی کے استعمال کے بارے میں ادا ہوئے کلمات نے سوشل میڈیا پر رونق لگادی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے مخالفین کے مابین اس تناظر میں روایتی پھکڑپن جاری ہے۔ میری اصل فکر مگر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے وزیر اعظم سمیت صف اوّل کے رہ نما بغیر کسی معقول وجہ کے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے دشمنوں کی صف میں دھکیل رہے ہیں۔ حالانکہ فیصل واوڈا کی وجہ سے اُٹھے قضیے کی آگ کو بجھانے میں بلاول بھٹو زرداری نے اس کی حکومت کے لئے ایک اہم ’’سہولت کار‘‘کا کردار ادا کیا تھا اور کالعدم تنظیموں کے خلاف جو اقدامات اٹھانے کا ارادہ ہے انہیں عملی صورت دینے کے لئے اسے پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی اعتبار سے اپنا ممکنہ ’’اتحادی‘‘ تصور کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف مگر Soloکھیلنے کو بضد نظر آرہی ہے۔ مجھے Soloکھیلنے کی اس خواہش سے خوف محسوس ہورہا ہے۔