اسلامی نظام اور خلافت کی تشریح۔۔۔

اسلامی نظام اور خلافت کا سنتے ہی ہمارا رنگ جو فق ہوجاتا ہے اور شکل کسی قولنج زدہ شخص جیسی ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اسلامی نظام اور خلافت کا تصور ہے ہی نہیں۔اس میں کچھ دخل ہمارے علما کرام اور کچھ ہمارا اپنا ہے۔ ہمیں اسلامی تاریخ سے دانستہ نا بلد رکھنے والے بھی اس بدنصیبی کے اہم کردار ہیں۔ خلافت کی تعریف بہٹ سادہ اور آسان ہے۔خلافت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ خلیفہ خود مستقل حکمران نہیں ہوتا بلکہ حکمرانی کے معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت و خلافت کرتا ہے اور اس طرح وہ خود حکومت کرنے کی بجائے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق حکمرانی کوان کی تعلیمات و ہدایات کے دائرے میں رہتے ہوئے نیابتاً استعمال کرتا ہے۔

خلیفہ کا انتخاب حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی طرح عوام کی اجتماعی رائے سے ہوتا ہے۔ عوام کا اعتماد وانتخاب ہی اس کے حق حکمرانی کی بنیاد ہے۔وہ اپنی معاونت و مشاورت کے لیے اہلیت اور صلاحیت رکھنے والے افراد کاانتخاب کرتا ہے اور ان کے مشورہ سے حکومتی نظام چلاتا ہے۔اس میں خلیفہ قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کا پابند ہوتاہے ، اس لیے وہ اپنی ذاتی خواہش کی بنیاد پر کوئی کام کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔رعیت کے ہر فرد کو بلاامتیاز مذہب خلیفہ سے کھلے بندوں باز پرس کا حق حاصل ہوتا ہے، او ر وہ ہر شخص کومطمئن کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

خلیفہ کے کسی بھی حکم کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور وہ عدالت کی حاضری اور جوابدہی سے مستثنیٰ نہیں ہوتا ۔خلافت کے قیام کے بنیادی اصول یہی ہیں لیکن اس کی عملی تفصیلات اور طریق کار ہر زمانے میں اور ہر علاقے کے ماحول اور ضروریات کو دیکھ مشاورت سے طے کیے جاسکتے ہیں۔

قرآن و سنت میں انسانی زندگی کے انفرادی، خاندانی، معاشرتی، قومی او ر بین الاقوامی مسائل کے بارے میں جو ہدایات و احکام موجود ہیں، ان کا مجموعہ اسلامی نظام ہے اور ان کے عملی نفاذ کا سسٹم خلافت کہلاتا ہے۔اور اس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے تمام احکامات اور قوانین ایک مسلمان کے لیے واجب الاتباع ہیں اور ان میں شخصی، خاندانی یا معاشرتی قوانین کی تفریق نہیں ہے، اس لیے جس طرح ایک مسلمان شخص کے لیے نماز، روزہ اور عبادات کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ، اسی طرح مسلمان سوسائٹی کے لیے اجتماعی احکام و قوانین پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور بحیثیت مسلمان سب اس کے پابند ہوتے ہیں۔

اسلامی نظام ایک اسلامی حکومت ہی نافذ کرتی ہے۔ ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سب سے بہتر اور آئیڈیل طریق کار وہی ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام ؓنے حضرت ابوبکرصدیق ؓکوباہمی مشاورت او ربحث و مباحثہ کے بعد اتفاق رائے سے خلیفہ منتخب کر کے اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد مختلف خلفائے راشدین ؓکے انتخاب کے طریقے اور حضرات صحابہ کرامؓ کی اختیار کردہ متفقہ صورتیں بھی اس طریق کار کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس سب کے لیے پہلے سے خلافت کا نظام اور سسٹم موجود ہونا ضروری ہے۔اور اگر آج کل از سر نو خلافت کے ڈھانچے کی تشکیل کرنا ہو تو حضرت صدیق اکبرؓ کے انتخاب والا طریقہ ہی اس کے لیے درست طریق کار ہوگا۔

اس نظام کا سب سے بڑا امتیاز اورحُسن یہ ہے کہ اس نے شخصی حکومت کے طریق کار کو ختم کر کے دستوری حکومت قائم کی۔ اس کا نقطہ آغاز حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے یہ اعلانات ہیں کہ ” ہم اگر کتاب و سنت کے مطابق چلیں تو لوگوں پر ہماری اطاعت واجب ہے اور اگر قرآن وسنت سے انحراف کریں تو عوام کو ہماری اصلاح کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ یہ ان کی دینی ذمہ داری ہے” خلفائے راشدین نے خود کو ہر وقت عوامی احتساب کے دائرے میں رکھا اور ہر شہری کویہ حق دیاکہ وہ ان کی کسی بات پر کسی وقت اورکسی جگہ بھی ٹوک سکتا ہے اور وہ اس کا جواب دینے کے پابند ہیں۔کائنات کی مکمل ترین ویلفیئر سٹیٹ کا نمونہ ہمیں خلفائے راشدینؓ کے دور میں ہی ملتا ہے جہاں حکومت عوام کی جان ومال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ دارتھی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی اور کفالت کی ضامن بھی تھی۔ آج پوری دنیا اس کی معترف ہے۔خلفائے راشدینؓ نے حکمرانوں اور حکام کے لیے جس سادہ زندگی، قناعت اور غریب عوام کے ساتھ ان کی سطح پر رہنے کی جوتصور اور مثال پیش کی وہی اس نظام کی جڑ ہے۔جس میں سوسائٹی کے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق کا قائم کیا گیا بلکہ تمام تر طرز عمل اورپالیسیوں کی بنیاد خوف خدا اور آخرت کی جوابدہی پر رکھی۔

میرا جسم میری مرضی والوں کو بھی بتاتا چلوں کہ اسلام کے اس نظام میں عورت کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مرد کو ہیں البتہ اس کی صنفی اورمعاشرتی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حقوق و فرائض کا مرد سے امتیاز رکھا گیا ہے جو فطری طور پر ناگزیر ہے اور سوسائٹی میں خاندان کے یونٹ کو برقرار رکھنے اور اسے استحکام دینے کے لیے خاندانی سسٹم میں مرد کی فوقیت اور سنیارٹی کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ادارہ برابر کے اختیارات کے حامل دو افراد کی سربراہی میں نہیں چل سکتا اور خاندانی نظام میں مرد کی سربراہی کی نفی کرکے مغربی دنیا اس کا خمیازہ خاندانی نظام کے بکھر جانے کی صورت میں بھگت رہی ہے، چنانچہ صنفی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ناگزیر فرق و امتیاز سے ہٹ کر باقی تمام معاملات میں مردا ور عورت برابر ہیں اور دونوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی مسلم ملک نے،بشمول پاکستان اس نظام کو کیوں رائج نہیں کیا؟ مسلم ممالک میں اسلامی نظام نافذ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی رولنگ کلاس اور حکمران طبقات ہیں جن کی تعلیم و تربیت اسلامی تعلیمات اور ماحول میں نہیں ہوئی۔ ان کے مفادات مغرب کے ساتھ وابستہ ہیں ، ان کی بود و باش اور طرززندگی اسلامی نہیں ہے اور اسلامی نظام کے نفاذ کووہ اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اس لیے اسلامی نظام کی مخالفت کا حوصلہ نہ ہونے کے باوجود وہ اس کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔ایک اور بڑی وجہ موجودہ عالمی ماحول او ر سسٹم ہے۔

موجود عالمی نظام جو اقوام متحدہ او راس میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کی پالیسیوں اور خواہشات پر مرتب ہوا ہے اور چلایا جا رہا ہے، اس کی بنیاد ہی خلافت کی نفی اور انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی بے دخلی پر ہے۔ اس لیے موجودہ عالمی نظام انسانی سوسائٹی میں اسلامی نظام کی صورت میں آسمانی تعلیمات کی عملداری دوبارہ قائم ہونے کی مخالفت بلکہ مزاحمت کر رہا ہے اور اس کے لیے اپنے تمام وسائل اور توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ان دو وجوہات کے علاوہ ایک تیسرہ وجہ یہ کہ اسلامی نظام کا نفاذ چاہنے والے دینی حلقوں کی اکثریت آج کے معروضی حالات، رکاوٹوں، مشکلات اور مناسب طریق کار کے ادراک سے یا تو بہرہ ور نہیں ہے اور یا عمداً انہیں نظر انداز کر کے محض جذبات اور میسر طاقت کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کے درمیان مفاہمت و معاونت کی فضا موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کسی سطح پر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اسی طرح مسائل ومعاملات کے تجزیہ ، تحقیق اور منفی ومثبت پہلوو¿ں کو سامنے رکھ کر ان کی روشنی میں ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے کاکوئی رجحان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

پاکستان سمیت مسلم ممالک کی اکثریت ہنوز نوآبادیاتی دور سے گزر رہی ہے۔برطانیہ ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال او ردوسرے استعماری ممالک نے اپنے دور تسلط میں ان مسلم ممالک میں مسلم سوسائٹی کے اجتماعی مزاج کو بگاڑنے پرٹارگٹڈ کام کیا ہے۔ ان ممالک کی آزادی کے بعد ان میں نو آبادیاتی نظام ابھی تک باقی ہے اور معاشرتی مزاج کے بگاڑ کو درست کرنے کی طرف بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعدجن طبقات نے نظام سنبھالا ہے، وہ نوآبادیاتی نظام ہی کے پروردہ او ر تربیت یافتہ تھے جنہیں نظام کی تبدیلی میں اپنے لیے خطرات محسوس ہو رہے ہیں اور وہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پاکستان میں یہ طبقات آپ کو نظر آرہے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل داری میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن حکمران طبقات اور ریاستی ڈھانچہ اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

پاکستان میں قرار داد مقاصد کی منظوری اور1973 کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت کے ساتھ قرآن و سنت کے احکام کو نافذ کرنے اور خلاف قرآن و سنت قوانین کی منسوخی کی جو دستوری ضمانت دی گئی ہے، اس کے بعد قرآن وسنت کے احکام کے نفاذ میں کوئی اصولی رکاوٹ باقی نہیں ہے، لیکن عالمی استعماری قوتوں کا دباو¿ اور نو آبادیاتی نظام کے تسلسل کی وارث بیوروکریسی اپنے مفادات کی وجہ سے دستور کی اسلامی دفعات پر عملد رآمد نہیں ہونے دے رہی اور پاکستان سمیت مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کی اب تک ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے ۔ موجودہ حالات میں جب تک اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہاں حلقے اپنی حکمت عملی اورطرز عمل پر نظر ثانی کرکے موجودہ حالات و ضروریات کوسامنے رکھ کر باہمی مشاورت و مفاہمت کے ساتھ کوئی مشترکہ حکمت عملی طے نہیں کرتے، تب تک مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کی کامیابی کے کوئی آثار بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔

یہ بات بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ اس نام نہاد جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو بلاتفریق ہر قسم کا اختیار دے کر آسمانی تعلیمات کے نفاذ یا عدم نفاذ کو بھی اسی کے دائرہ اختیار میں شامل کر دیا گیا ہے اور اسے احکام خداوندی پر بھی نعوذباللہ بالادستی دے دی گئی ہے جب کہ اس کے برعکس خلافت اگرچہ عوام کے اعتماد واختیار کے ذریعہ ہی تشکیل پاتی ہے، لیکن اس میں خلیفہ یا اس کی شوریٰ یا پھر عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو قرآن وسنت کا پابند رہنا پڑتا ہے اور اسلامی احکام سے انحراف کی اجازت نہیں ہوتی۔یہ بات مسلم ہے کہ مسلمانوں کے لیے آج بھی خلافت ہی واحد سیاسی نظام ہے جو پوری دنیائے اسلام کی اجتماعیت کا مرکز بن سکتا ہے اور اس کے زیرسایہ دنیا بھر کے مسلمان برکات وثمرات کے ساتھ ساتھ دنیاوی اقتدار اور ترقی سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔

آج کے دور میں دنیا خلافت کے وجود سے خالی ہے اور فقہائے امت کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلہ ایک فریضہ کی تارک اور گنہ گار ہے۔بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاءکرام علیہم السلام کے پاس تھی مگر اب چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، اس لیے سیاسی قیادت کی ذمہ داری خلفا کو منتقل ہو گئی ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خلافت کے نظام کے ساتھ وابستگی اور وفاداری کی تلقین بھی فرمائی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے