[pullquote]پانچویں پارے کے مضامین[/pullquote]
پانچویں پارے کے شروع میں محرمات قطعیہ کے تسلسل میں یہ بھی بتایا کہ جب تک کوئی عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہے ‘ اس سے نکاح حرام ہے ‘ یہاں تک کہ اگرشوہر نے طلاق دے دی ہو تو عدت کے اندرنکاح اور واضح الفاظ میں نکاح کا پیغام دینا بھی حرام ہے؛البتہ عدت کے بعد عورت اپنی رضا مندی سے دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے۔
آیت نمبر:29میں بتایا کہ باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھانا حرام ہے اور باہمی رضا مندی سے تجارت جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی جائز ہے۔ اسی طرح ہبہ اور وراثت کے ذریعے جو مال ملے وہ بھی جائز ہے‘ مگر جوا ‘ سٹہ‘غصب‘ چوری ‘ ڈاکہ ‘ خیانت‘ رشوت‘ جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی کے ذریعے دوسروں کامال حاصل کرنا حرام ہے۔اور جو شخص ظلماً دوسروں کا مال کھائے گا‘ وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔
آیت نمبر:32میں حسد کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے کسی کو مال ‘ عزت یا مرتبے میں فضیلت دے رکھی ہے تواس کے زائل ہونے کی تمنا نہ کرو ‘ کیونکہ یہی حسد ہے ‘جو حرام ہے‘کسی کے ساتھ حسد کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ سے اس کا فضل کا سوال کرو‘ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :”مرد عورتوں کے منتظم اور کفیل ہیں ‘ کیوں کہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لئے (بھی)کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کئے ہیں(یعنی شوہر مہر بھی ادا کرتاہے اور بیوی بچوں کی کفالت بھی اس کے ذمے ہے) ‘‘آیت نمبر:37میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا حکم فرمایا اور شرک (کی تمام صورتوں) کی ممانعت فرمائی ہے ۔ اس کے بعد حقوق العباد کا بیان ہوا اور فرمایا کہ ماں باپ‘ قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں ‘ پڑوسیوں ‘ مسافروں اور اپنے ما تحتوںکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو‘ پھر پڑوسیوں کی درجہ بندی کی۔آیت نمبر:37تا 40میں بُخل اور رِیا کاری کی ممانعت کا حکم ہے اور فرمایا کہ جس کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو وہی رِیاکاری کرسکتا ہے ‘ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا اور نیکی کا اجر دُگنا فرمادیتا ہے۔آیت نمبر:45میں نماز کے چند مسائل بیان فرمائے ۔ آیت نمبر:46میں یہودیوں کی ایک قبیح خصلت کا ذکر ہے کہ وہ کلامِ الٰہی میں تحریف کرتے ہیں۔
آیت نمبر:48میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کے گناہ کو کسی صورت میں معاف نہیں فرماتا ‘ اس کے علاوہ وہ جس کے لئے چاہے ‘اس سے کم تر گناہوں کو معاف فرمادیتاہے۔آیت نمبر:58میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ امانتیں ان کے حق داروں کو دو اور جب فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ آیت نمبر:59میں فرمایا :”اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں ‘ ان کی اطاعت کرو‘‘۔ اس میں اللہ عزّوجلّ اور رسول ِ مکرمﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم ہے اور اہلِ اقتدار کی اطاعت مشروط ہے ۔ اگر اہلِ اقتدار کے ساتھ کسی معاملے کے جائز یا ناجائز ہونے کی بارے میں اختلاف ہوجائے ‘ تو فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا۔
آیت نمبر:60تا 63میں منافقین کی‘ مکروہ چالوں اور دورُخے پن کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد اہلِ ایمان کے لئے ایک ایمان افروز نوید ہے ۔آیت نمبر:65میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کو آپس کے جھگڑوں میں حاکم نہ بنائیں اور پھر آپ جو فیصلہ صادر فرمادیں ‘ اسے دل وجان سے قبول نہ کریں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے فیصلے پر دل میں بھی کوئی تنگی اور مَلال نہیں آنا چاہیے)تووہ بظاہر ایمان کے دعوے کے باوجود حقیقت میں مومن نہیں ہوسکتے۔
آیت نمبر:69میں فرمایا: جوا للہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے ‘ تو وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے ‘ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ جو انبیاء ‘ صدیقین ‘ شہدا اورعباد الصالحین ہیں۔ اس کے بعد جہاد کے بارے میں احکام ‘ ہدایات اور کامیابی کی بشارتیں ہیں۔ آیت نمبر:76اور اس کے بعد والی آیات میں بتایا کہ منافق اور بزدل لوگوں کوجب جہاد کی دعوت دی جاتی ہے ‘ تو جان جانے کے خوف سے ان کے دل لرز جاتے ہیں اور وہ زندگی کی مہلت چاہتے ہیں۔آیت نمبر:86میں معاشرتی آداب بتائے گئے کہ جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے ‘ تو تم اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو (جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!) یا کم ازکم انہی الفاظ میں جواب دو(جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے :وعلیکم السلام)۔ زمانۂ جنگ میں مسلمانوں کو کئی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا : (الف)وہ منافقین جو دل سے مسلمانوں کی تباہی اور ناکامی چاہتے تھے ‘ ان کے لئے فرمایا کہ نہ تو انہیں اپنا دوست بنایا جائے اور نہ ان کے ساتھ کوئی رعایت برتی جائے ‘بلکہ ان کا قلع قمع کردیا جائے ۔
(ب)کچھ لوگ وہ تھے جو جنگ سے گریز چاہتے تھے‘ نہ مسلمانوں سے لڑنا چاہتے تھے اور نہ اپنی قوم کی حمایت میں لڑنا چاہتے تھے یا وہ ایسی قوم کے پاس چلے جاتے‘ جن کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ نہ کرنے کا معاہد ہ ہے‘ تو قرآن نے بتایا؛اگر وہ جنگ سے کنارہ کش ہوجائیں اور مسلمانوں سے نہ لڑیں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام دیں ‘ تو مسلمانوں کو بھی ان سے تعرُّض نہیں کرنا چاہیے۔(ج)منافقین کا ایک گروہ وہ تھا‘ جو مسلمانوں اور اپنی قوم دونوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتاتھا‘ لیکن ان کی باطنی کیفیت یہ تھی کہ اگر ان کی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے‘ تو وہ اس میں کود پڑیں ‘ تو قرآن نے بتایا : اگر وہ مسلمان سے الگ نہ ہوں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام نہ دیں اور موقع ملنے پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے اپنا ہاتھ نہ روکیں ‘ تو مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ موقع ملنے پر ان کا قلع قمع کردیں۔
آیت نمبر:92قتلِ خطا کا حکم بیان ہوا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر ارادی طور پر غلطی سے کسی مسلمان کا قتل ہوجائے ‘ تو اس کی تلافی کے لئے کفارہ بھی دینا ہوگا اور مقتول کے ورثاء کو دیت بھی دینی ہوگی‘ سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثاء دیت معاف کردیں ۔ آیت نمبر: 93 میں قتلِ عمد یعنی ارادی طور پر کسی بے قصور انسان کی جان کو تلف کرنے کا حکم بیان کیا گیا ۔ آیت نمبر:95میں یہ بتایا کہ جو لوگ جہاد سے کنارہ کش ہیں ‘ ان کا درجہ ان کے برابر نہیں ہوسکتا ‘ جو اپنی جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں ۔
آیت نمبر:101اور بعد کی آیات میں مسافر کیلئے نماز میں قصر کا حکم بیان ہوا ہے ‘ فقہِ حنفی میں مسافتِ سفر کی مقدار 98کلومیٹر ہے ۔ نماز اور جماعت اتنا لازمی فریضہ ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی ساقط نہیں ہوتا‘ پھر فرمایا کہ جب تم نماز ادا کرچکوتو حالتِ قیام ‘ حالتِ قعود اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے ‘ یعنی ہر حال میں اللہ کو یاد کرو ‘ اللہ کا ذکرکرواور جب حالتِ جنگ ختم ہوجائے اور امن کی حالت ہوتو معمول کے مطابق ؛نماز ادا کرو ‘ بے شک نماز مومنوں پر وقت مقرر میں فرض کی گئی ہے۔اللہ فرماتاہے کہ جو کوئی گناہ کاکام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے ‘پھراللہ سے مغفرت طلب کرے‘ تو وہ اللہ کو غفور ورحیم پائے گا اورہرشخص کی بداعمالیوں کا وبال اُسی پر آئے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اورجوشخص ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور تمام مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلے ‘تو ہم اُسے اُسی طرف پھیردیں گے ‘جسے اُس نے خود اختیار کیا اور اُسے جہنم میں داخل کردیں گے اور وہ براٹھکانہ ہے‘‘ اس میں واضح طورپر وعید ہے کہ کسی شخص کامسلمانوں کے اجماعی راہ سے ہٹ کر اپنے لئے الگ راہِ عمل مُتعین کرنا‘ جہنم کا راستہ اختیار کرناہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے پیروکاروں کے لئے جہنم کی وعید سنائی ہے اور مومنین ِ کاملین کے لئے جنت کی بشارت دی ہے اور فرمایاکہ ہرصاحبِ ایمان مرداور عورت جنہوں نے حالتِ ایمان میں نیک کام کئے ‘وہ جنت میں داخل ہوں گے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اُس سے اچھا دین کس کاہوگا ‘جو اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے سپردکردے ‘اور وہ نیکوکارہواورملّتِ ابراہیم کا پیروکار ہو ۔آیت نمبر:135میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اے مومنو!انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لئے گواہی دینے والے بن جاؤ‘خواہ (یہ گواہی )تمہاری ذات کے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف ہو(فریقِ معاملہ ) خواہ امیر ہو یا غریب‘ اللہ اُن کا (تم سے )زیادہ خیرخواہ ہے ۔
پس(گواہی دیتے وقت )تم خواہش کی پیروی کرکے عدل سے رُوگردانی نہ کرو اوراگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا ‘تواللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے ‘‘۔منافقین کی ایک علامت یہ بتائی کہ نماز میں سستی کرتے ہیں ‘نماز کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور صرف دکھاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں ۔یہ لوگ ہمیشہ کُفروایمان کے درمیان مُتزلزل رہتے ہیں ‘اسی لئے فرمایاکہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے ۔