آٹھویں پارے کے مضامین

رسول اللہ ﷺ سے کفار طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے‘ جب فرشتے ہمارے پاس اتر کر آئیں یا برزخ وآخرت کے بارے میں آپ جو باتیں ہمیں بتاتے ہیں‘ ہمارے جو لوگ مرچکے ہیں ‘ وہ زندہ ہو کر آئیں اور آپ کے دعووں کی تصدیق کریں‘قرآن نے بتایاکہ اُن کی یہ ساری باتیں جہل پر مبنی اور انکارِ حق کے لئے محض بہانے بازی ہے ۔

سورۃ الانعام کی آیات117-118میں فرمایا: جس (حلال جانور )پر ذِبح کے وقت اللہ کا نام لیاگیاہو ‘اُسے کھاؤ‘ جو حرام چیزیں ہیں‘ انہیں تمہارے لئے تفصیل سے بیان کردیاگیا‘صرف حالتِ اضطرار میں اور وہ بھی بقدرِ بقائے حیات کھانے کی اجازت ہے ۔ مزید فرمایا: جس ذبیحے پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو‘ اُسے نہ کھاؤ۔آیت:123میں فرمایا : اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اُس کے مجرموں کو سردار بنایا‘ تاکہ وہ وہاں فریب کاری کریں اور اُن کے دَجل وفریب کا وبال اُنہی پر آئے گا۔ آیات 130,131 میں اتمامِ حُجّت کیلئے فرمایا:” اے جنّات اور انسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے ‘جو تم پر میری آیات بیان کرتے تھے اور تمہیں اس (قیامت کے)دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے ؟وہ کہیں گے: ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور اُنہیں دنیاکی زندگی نے فریب میں مبتلا کررکھاہے ۔(یہ گواہی اس وجہ سے دی گئی کہ )آپ کا رب بستیوں کو ظلماً ہلاک کرنے والا نہیں ہے‘‘ ۔

آیات 142تا 146میں اللہ تعالیٰ نے پھلوں‘ کھیتوں اور جانوروں کے ذریعے عطا کی جانے والی نعمتوںکا ذکر فرمایا کہ ” اللہ کی ان نعمتوں کو کھاؤ ‘ اسراف نہ کرو اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو‘پھلوں اور کھیتوں کی پیداوار میں اللہ تعالیٰ کے حق (عُشر یا نصف عُشر)کو اداکرو‘‘ پھرفرمایا کہ ”یہود کی سرکشی کی وجہ سے ناخن والے جانوروں اور گائے اور بکری کی چربی کو ان پر حرام کر دیا گیا تھا‘انہوں نے اسے پگھلایا اور فروخت کردیا‘‘۔

آیت 148میں ہر دور کے منکرین کے ایک نفسیاتی حربے کو بیان کیا کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں ‘ یہ اللہ کی مشیت ہے ‘ اگر وہ نہ چاہتا تو ہم یہ سب کچھ نہ کرپاتے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ اللہ کی مشیت اور ہے اور اس کی رِضا اور ہے‘ مثلاً: مجرم کو سزا دینا اس کی مشیت ہے ‘ لیکن اس کی رِضا اس میں ہے کہ کوئی اس کی نافرمانی نہ کرے۔

اگر سب کو جبری طور پر اطاعت کے راستے پر ڈالنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ‘ تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کی حکم عدولی کرے۔ آیات152تا154میں فرمایا کہ(1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘(2) والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو‘(3) تنگ دستی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو‘(4) ظاہر ومستور فحاشی سے اجتناب کرو ‘ (5)قتلِ ناحق نہ کرو‘(6) یتیم کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ‘ (7)لین دین میں ناپ تول پورا کرو‘(8) بلا تمیز سب کے ساتھ انصاف کرو (9)اور اللہ سے کئے گئے عہد کی پاسداری کرو؛ چونکہ یہ نو اَحکامِ شرعیہ ہی دینِ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور لُبِّ لُباب ہیں اور باقی تمام شرعی اَحکام انہی پر منحصر ہیں ‘اسی لئے فرمایا:”یہی سیدھا راستہ ہے فرقہ بندی چھوڑ کر اسی کی پیروی کرواور کتابِ الٰہی کے اَحکام کو ملحوظ رکھو‘‘۔

آیات:164,163میں حقیقتِ ایمان اور روحِ ایمان اور مسلمان کے مقصدِ حیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”(اے رسول!) کہہ دیجئے کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ رب العالمین کے لئے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں‘‘۔

[pullquote]الاعراف[/pullquote]

اعراف کے معنی بلندی کے ہیں اور اس کا معنی جاننا اور پہچاننا بھی ہے ۔” اصحابِ اعراف‘‘کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے اور ان کا مقام جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگایایہ وہ لوگ ہیں‘ جو اہل جنت اور اہلِ جہنم کو پہچاننے والے ہوں گے اور ایک قول کے مطابق یہ انبیاء ہیں یا ملائکہ ہیں۔ آیت :8 میں بتایا کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن کیاجانا حق ہے اورجن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا ‘وہی فلاح پانے والے اور کامیاب ہیں اور جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا ‘وہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ آیات:11تا 27میں آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا کہ جب ابلیس نے اللہ کے حکم پر آدم کو سجدہ نہ کیا ‘ تو ربِ ذوالجلال نے اس سے پوچھا کہ تو نے میرے حکم کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا۔ اس نے اپنی سرکشی کا جواز عقلی دلیل سے پیش کیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں‘ انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ‘ میرا جوہرِ تخلیق آگ ہے اور آگ لطیف ہونے کی بناپر مٹی سے افضل ہے۔

تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو رسوا کرکے مقامِ عزت سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم وحوا علیہما السلام کو جنت میں داخل کیا اور انہیں خاص درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ شیطان نے ان کو وسوسہ ڈالا اور مخلص اور خیرخواہ کا روپ اختیار کرکے کہا کہ آپ لوگوں کو اس درخت کے قریب جانے سے محض اس لئے منع کیا گیاہے کہ اس کے قریب جاکر آپ لوگ فرشتے بن جائیں گے اور آپ لوگوں کو ابدی زندگی مل جائے گی‘ اس نے قسمیں کھا کر اپنی خیرخواہی کا یقین دلایا ‘ پھر ان سے اجتہادی خطا ہوئی اور اس درخت کو چکھنے سے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوئیں اور وہ درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانپنے لگے ‘ یہاں قرآن نے یہ بھی بتایاکہ شیطان کا مقصد ان کے ستر کو بے حجاب کرنا تھا۔ اپنی اجتہادی خطا کا احساس ہونے پر آدم علیہ السلام نے توبہ کی اور ان کی توبہ کے کلمات آیت نمبر23میں بیان ہوئے ہیں۔

آیت: 127,126 میں اللہ تعالیٰ نے مقصدِ لباس بیان فرمایا کہ ہم نے بنی آدم پر لباس اس لئے اتارا کہ ان کی ستر پوشی ہو اور سامانِ زینت ہواور سب سے بہتر لباس تو تقویٰ ہے‘ پھر بنی آدم کو متنبہ کیا گیا کہ شیطان کے مکرو فریب میں نہ آئیں ‘ اس کو یہ مَلکہ دیا گیا ہے کہ وہ تمہیں ہر جہت سے دیکھ سکتا ہے۔ آیات:31اور 32میں فرمایا ” اے بنی آدم! ہر عبادت کے وقت لباسِ زینت کو اختیار کرو اور اسراف سے بچتے ہوئے اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرو‘ پاکیزہ چیزیں ‘ خواہ لباس ہو یا خوراک مومنوں کے لئے حلال ہیں ‘ اللہ نے تو ظاہر وباطن میں بے حیائی ‘ گناہ اور حق سے عدول کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔

آیت :54میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں او راس کے بعد آیت نمبر 54 اور 55 میں فرمایا کہ اپنے رب کو گڑ گڑا کر‘ چپکے چپکے اُس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ‘ اس کی رحمت کا یقین رکھتے ہوئے پکارو۔آیت :57میں اللہ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کے نظام کے بارے میں بتایا کہ اس کے حکم سے ہوائیں پانی سے بھرے بادلوں کو اُٹھا کر لے جاتی ہیں اور بنجر زمین پر برسا کر اس میں اللہ کی نعمتیں پیدا کردیتی ہیں‘ پھر فرمایا کہ اچھی زمین اللہ کے حکم سے سبزہ اگاتی ہے اور خراب زمین باغ وبہار نہیں لاتی ۔ یہ مثالیں دے کر قرآن یہ بتاتا ہے کہ انسانوں کے دل ودماغ کی زمین کا حال بھی ایسا ہی ہے ‘ یعنی پاکیزہ دل ودماغ میں ایمان قرار پاتاہے اور اعمال کے ثمرات پیدا ہوتے ہیں ‘ جبکہ خبیث دل ودماغ میں خیر کے پھل اور پھول پیدا نہیں ہوتے۔ آیت :59سے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے حالات بیان کئے گئے ہیں کہ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا: ”(معاذاﷲ) آپ کھلی گمراہی میں ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اللہ کا رسول ہوں اور میرا کام تمہاری خیرخواہی اور تم تک دعوتِ حق کو پہچانا ہے‘‘ ۔

آیت :65سے اگلی آیات میں حضرت ہود اور ان کی قوم عاد کا ذکر ہے کہ قومِ عاد نے بھی اللہ کے نبی پر طعن کیاکہ (معاذاللہ) آپ حماقت میں مبتلا ہیں ‘ پھر ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو وہی جواب دیا ‘ جو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دیا تھا۔ حضرت ہود علیہ السلام نے قومِ عاد کو انعاماتِ الٰہیہ کا شکر اداکرنے کی تلقین کی ‘ اُن کے انکار کے سبب اُن پر اللہ کا عذاب اور غضب نازل ہوا‘ اللہ نے حضرتِ ہود اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی ۔ آیت :73سے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی قوم ثمود کا ذکر ہے۔ قومِ ثمود کے لوگ بڑے طاقت ور تھے اور یہ نرم زمین میں محلات بناتے اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بناتے تھے‘ گویا ان کو اپنی طاقت پر ناز تھا‘ پھر قومِ ثمود نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور حضرت صالع کو معجزے کے طور پر دی گئی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی سزا اس طرح دی کہ ان پررات کو زلزلے کا عذاب آیا اور صبح کو وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔

آیت :80سے 84 تک حضرت لوط اور ان کی قوم کا ذکر ہے کہ وہ بے حیائی میں اپنے زمانے کے سب لوگوں پر سبقت لے گئے‘ وہ اپنی جنسی خواہش کو غیرفطری طریقے سے پورا کرتے تھے اور جب اللہ کے نبی عذاب کا ڈر سناتے تو وہ اسے مذاق سمجھتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا ‘ آسمان سے پتھر برسائے اور اس طرح ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا ‘ یہاں تک کہ حضرت لوط علیہ السلام کی وہ بیوی‘ جو قومِ لوط کی ہم خیال تھی‘ وہ بھی عذاب سے نہ بچ سکی ‘ صرف حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھ قبیلے کے چند نیکو کار لوگ ہی محفوظ رہے۔ آیت:85میں قوم ِ مَدیَن کا ذکر ہے کہ وہ ناپ تول میں ڈنڈی مارتے اور دوسروں کو چیزیں کم تول کر دیتے تھے اور راستے میں بیٹھ کراہلِ ایمان کوڈراتے اور انہیں راہِ راست سے روکتے۔ انہیں بھی کہا گیا کہ فساد فی الارض سے بازآجاؤ اور اپنے سے پہلی سرکش امتوں کا انجام دیکھ لو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے