گیارہویں پارے کے مضامین

اس پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے نبیِ کریم ﷺ کو غیب کی خبر سے مطلع فرمایا کہ جب آپ سفرِ جہاد سے واپس مدینہ طیبہ پہنچیں گے تو بغیر کسی عذر کے جہاد سے پیچھے رہنے والے منافقین جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے عذر پیش کریں گے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ آپ ان سے کہہ دیں کہ بہانے بنانے کی ضرورت نہیں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے حالات سے مطلع فرما دیا ۔ یہ واقعہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان سے صرفِ نظر کریں ‘ یہ ناپاک لوگ ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

آیت:98سے عرب کے دیہاتی لوگوں کے دو طبقوں کا بیان ہوا‘ ایک وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان سمجھتے ہیں اور مسلمانوں پر برے دن آنے کے منتظر رہتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں‘ جو اِسے اللہ تعالیٰ کی رِضا اور نبی ﷺ کی نیک دعاؤں کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ آیت :100میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے میں پہل کرنے والے مہاجرین وانصار اور نیکی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کو اپنی رضا مندی کی قطعی سند عطا فرمائی اور ان کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں کی بشارت سنائی۔آیت :103 میں فرمایا : (اے رسول!) مسلمانوں کے مال داروں سے زکوٰۃ لیجئے تاکہ اس کے ذریعے آپ انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں‘ بے شک آپ کی دعا ان کے لئے سکون کا سبب ہے ۔

آیت :107میں” مسجد ضرار‘‘ کا ذکر ہے ‘ منافقین نے حضور کو اس میں نماز پڑھنے کی دعوت دی‘ تاکہ یہ مستند ہوجائے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو منع فرمادیا اور بتایا کہ یہ مسجدمسلمانوں کو ضرر پہنچانے‘کفر پھیلانے‘اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے‘ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں کے لئے سازشوں کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو واپسی کے سفر میںمسجدِ قباء میں قیام کا حکم دیا ‘جس کی بنیاد تقوے پر رکھی گئی ہے اور جس میں اللہ کے پسندیدہ بندے نماز پڑھتے ہیں ‘ منفی مقاصد کے لئے بنائی ہوئی مسجد اس کے برابر نہیں ہوسکتی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات بظاہر نیک کام اگر منفی مقاصد کے لئے کیا جائے تو اللہ کے ہاں اسے قبولیت نہیں مل سکتی ۔
آیت:111میں فرمایا کہ اہلِ ایمان نے اپنی جان ومال کو اللہ کو فروخت کردی ہے‘ اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی نعمت عطا فرمائے گا۔ آیت :112میں اہلِ ایمان کی صفات بیان ہوئیں ۔

آیت :118میں غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ (کعب بن مالک ‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم ) کا بیان ہے ۔ آیت :122میں بیان کیا کہ سارے مسلمان اپنے سارے مشاغل کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دین کے لئے وقف نہیں کرسکتے ‘ پس ضرور ی ہے کہ ہر علاقے اور طبقۂ زندگی میں سے کچھ لوگ دین کی راہ میں نکل کھڑے ہوں اور دین میں مہارت حاصل کریں تاکہ وہ اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں ‘ یعنی یہ پورے معاشرے پر فرضِ کفایہ ہے۔

آیت :124میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وحیِ ربانی نازل ہونے سے مخلص مومنوں کے ایمان کو تقویت ملی ہے اور منافقین اورمنکرین کے کفراورنفاق کی بیماری میں اضافہ ہوتاہے ۔

[pullquote]یونس[/pullquote]

آیت :05میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کو روشنی دینے والا بنایا اور چاند کو روشن بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں‘ تاکہ برسوں کا حساب ہوسکے ۔ آیت :11میں بتایا کہ لوگ دنیا کے مفادات طلب کرنے میں جتنی جلدی کرتے ہیں ‘اگر اللہ تعالیٰ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اتنی ہی جلدی فرمائے ‘ تو ان کی موت جلد آجائے ‘ لیکن انہیں مہلت دی جاتی ہے ۔آیت :15سے بتایا کہ منکرینِ آخرت کے سامنے جب آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیںآپ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیں یا اس کو تبدیل کردیں‘ تواللہ تعالیٰ نے فرمایا(اے رسول!)آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اپنی جانب سے اس میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے ‘ میں تو صرف وحیِ ربانی کی پیروی کرتاہوں۔

آیت :18میں فرمایا کہ مشرک اللہ کو چھوڑ کر ایسے باطل معبودوں کو پوجتے ہیں جوانہیں نفع ونقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں ۔ آیت :22 میںاللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ آیت نمبر:26میں بتایاکہ قیامت کے روز نیک اَعمال کرنے والوں کو بہترین جزا ملے گی اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔

آیت :57میں قرآن مجید کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک عظیم نصیحت آئی ہے‘ جو دلوں کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے اور اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ۔ آیت :63سے اولیاء اللہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں نہ کسی آنے والی بات کا خوف ہوگا اور نہ ہی کسی گزری ہوئی بات کا رنج وملال ‘ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہمیشہ تقوے پر کاربند رہے‘ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بشارت ہے اور آخرت میں بھی‘ اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیںہوتی اور یہ بڑی کامیابی ہے ۔

آیت : 68میں فرمایا کہ ان منکروں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے‘ اللہ سے اس سے پاک ہے اور آسمانوں اورزمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اس سے بے نیاز ہے ‘ تو کیا اس باطل دعوے کی ان کے پاس کوئی دلیل ہے؟۔ آیت: 71سے نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا جارہاہے کہ میرا تمہارے درمیان رہنا اور تمہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا کیوں ناگوار ہے جب کہ میں نے تواللہ پر توکل کیا ہے اور تم سے دعوتِ حق کے صلے میںکسی اجر کا طلب گاربھی نہیں ہوں ۔

انہوں نے نوح علیہ السلام کو جھٹلایا ‘ ہم نے نوح اور ان کے پیروکاروں کو نجات دے دی اور آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے والوں کو طوفان میں غرق کردیا۔ اس کے بعد ہم نے موسیٰ وہارون علیہما السلام کو فرعون اور اس کی قوم کے لئے بھیجا ‘ انہوں نے قبولِ حق سے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ ہیں ۔قومِ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو جادوقرار دیا اور کہا کہ آپ ہمیں آباء واجداد کے دین سے پھیرنا چاہتے ہیں اور زمین پر اپنی سرداری چاہتے ہیں ‘ اس کے بعد جادوگروں سے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کا ذکر ہے‘ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرعونیوں کے ڈر سے قومِ موسیٰ کے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے اور فرعون زمین میں متکبر بن بیٹھا ۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اگرتم اللہ پر ایمان لاچکے ہو تو اسی پر توکل کرو اور پھر انہوں نے دعا کی کہ ہم نے اللہ پر بھروسا کیا اور التجا کی اے پروردگار! تو ہمیں ظالموں کی قوم کے ذریعے آزمائش سے محفوظ فرمااور اپنی رحمت سے قومِ کفار سے نجات عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے موسیٰ وہارون علیہما السلام کوحکم دیا کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو عبادت گاہ بناؤ اور نماز قائم کرو ‘ یہ حکم اس لئے ہوا کہ بنی اسرائیل کے لئے فرعونیوں کے جبر کی وجہ سے کھلے عام عبادت کرنا مشکل تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی فرعون اور درباریوں کو چونکہ مال ودولت اور دنیا کی زینت میسر ہے اور اس کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں ‘ تواے اللہ !

توان کے مالوں کو تباہ کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے ‘تاکہ وہ درد ناک عذاب سے دوچار ہوں۔اﷲتعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے تمہاری دعا قبول کرلی ہے ‘ آپ دونوں ثابت قدم رہیں اور جاہلوں کی پیروی نہ کریں آیت : 90سے بیان کیا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو سلامتی کے ساتھ سمندر پار کرادیا اور فرعون اور اس کا لشکر عداوت اور سرکشی میں ان کے تعاقب میں آئے ‘ یہاں تک کہ جب سمند ر میں غرق ہونے لگے توفرعون نے کہا : میں اُس ہستی پر ایمان لایا ‘ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور جس کے سوا کوئی بھی مستحق عبادت نہیں اور میں مسلمان میں سے ہوں ۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سکراتِ موت ‘ موت اور غرغرہ کی کیفت طاری ہونے سے پہلے تک اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ‘ لیکن اس مرحلے پر توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو فرمایا کہ آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچا لیں گے ‘ تاکہ تم بعد میں آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بنے رہو۔ قرآن کا یہ معجزہ آج بھی سچا ہے کہ مصرکے فرعون کی حنوط شدہ مورتیاں آج بھی موجود ہیں ۔

آیت :96میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ صادر ہوچکا ہو ‘ وہ ایمان سے محروم رہتے ہیں ‘ خواہ ان کے پاس ساری نشانیاں آجائیں ۔آیت :104میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ آپ کفارِ مکہ سے کہہ دیں کہ اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک ہے ‘ تو میں کسی بھی صورتِ حال میں تمہارے باطل معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا‘ بلکہ میں اس اللہ کی عبادت کروں گا ‘ جو تمہاری روحیں قبض کرتاہے‘ یعنی جس کے قبضہ وقدرت میں تمہاری جان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی ایسے باطل معبود کی عبادت نہ کرو جو تمہارے نفع ونقصان پر قادر نہ ہو ‘ اگر (بالفرض) آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔ آیت:107سے فرمایا کہ ہر چیز اللہ کی قدرت واختیار میں ہے ‘ اگر وہ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو کوئی بچانے والا نہیں اور اگر وہ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے ‘ تو کوئی اس کے فضل کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا ‘ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتاہے ‘ اپنے فضل سے نوازتاہے اور وہ بہت بخشنے والا مہربان ہے ۔

اے رسول! کہہ دو کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق آچکا‘ سو جس نے ہدایت کو اختیار کیا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جس نے گمراہی کو اختیار کیا اس کا وبال اسی پر آئے گااور میں تم پر جبر کرنے والا نہیں ہوں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے