مودی کاکشمیرسے ہزارسالہ غلامی کاانتقام(3)

تازہ ایکٹ کے تحت نہ صرف ریاست کے حصے بخرے کئے گئے بلکہ حلقہ ہائے انتخاب کی تشکیل میں بھی رد و بدل کر کے ہر حلقہ میں مسلمانوں کے تناسب کو کم کرکے ہندو امید وار کے جیتنے کی راہ ہموار کی گئی ہے – ریاست میں بسنے والا ہر غیر ریاستی اس حلقہ میں ووٹر درج ہو سکے گا جس کا فوری فائدہ جموں میں آباد لاکھوں غیر ریاستی با شندوں کو ملے گا جو وہاں آباد ہیں ، کاروبار کرتے ہیں یا شادی بیاہ کرکے یہاں رہ رہے ہیں ، حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ کسی بھی ضلع ، تحصیل اور گاؤں کا نام بدلا جا سکتا ہے ، جس کا مقصد ہندو نام دیکر ’’ہندتوا‘‘ کو راسخ کیا جائے – شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کے لئے اسمبلی میں نشستیں مقرر کی گئ ہیں ، ظاہر ہے یہ کاسٹ سسٹم ہندوؤں میں ہی ہے ، یہ نشستیں بھی ان کے کھاتے میں جائیں گی-

جن ہزاروں غیر ریاستی باشندوں نے وہاں لیز پر زمین لے کر ہوٹل بنائے ہیں، کار خانے لگائے ہیں ، ان میں کام کرنے والے ملازم ، جو لاکھوں مزدور وہاں مزدوری کرتے ہیں، ان کے مستقل آباد ہونے کے راستےمیں قانونی رکا وٹیں ختم ہو جائیں گی – کشمیر میں سینک بستیاں Military colonies بسانے کا ہندوستان کا پرانا خواب پورا ہوگا ،جس کے تحت وہاں ریاست میںہلاک ہونے والے یا خدمت انجام دینے والوں کے ورثاء ، کشمیری پنڈتوں کے روپ میں آر ایس ایس کے متشدد فرقہ پرست لوگوں کو وہاں بسایا جائے گا – بے گھر ہونے والے کشمیری پنڈت فاتح کے طور ہندوستانی فوج کی مدد سے اپنی زمینیں مکان لوگوں سے واپس لیں گےم جو وہ فروخت کر چکے تھے- اس سے ریاست کی ڈیمو گرافی اسی فیصدسے زیادہ متاثر ہوگی – غر ضیکہ اس قانون کے تحت کشمیری نام کی کوئی شے بھی باقی نہ رہنے دینے کا عزم کیا گیا ہے –

ریاست میں اس غیر آئینی اور غیر اخلاقی رد و بدل سے پہلے بھی ہندوستان بدوں اختیار وہ سب کچھ کرتا تھا ،جو اس کے بعد زیادہ سختی سے کرے گا -اس کے باوجود اس وقت تک مسئلہ ختم نہیں ہوگا جب تک پوری ریاست کے لوگوں کی مرضی کے مطابق ریاست کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوگا -اس واردات کے بعد اس مسئلہ کی سنگینیت میں اور شدت آئے گی- کشمیریوں کی جدو جہد کو نئی روح مل گئی ہے -کشمیر کے ہندوستان نواز سیاست دان اس پر اتنے ہی سیخ پا ہیں جتنے ہندوستان مخالف – ہندوستان کی بائیں بازو کی ساری سیاسی جماعتیں ، حتی کہ کانگریس اور ہندوستان کی با شعور سول سوسائٹی میں بھی ارتعاش پیدا ہو گیا ہے – دنیا بھر میں اس پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے – اب اس کو دنیا بھی ہضم نہیں کر سکے گی-

اس سے پہلے تو ہندوستان کی طرف سے علامتی طور ایک عندیہ موجود تھا کہ اس ریاست کا تشخص بحال رکھا ہے ، اس کے ختم کیے جانے کے بعد اس کے مکمل حل کے لیےدنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہوگی- جس طریقہ سے لاکھوں فوجیوں کی سنگینوں کے سائے میں کرفیو لگا کر یہ کچھ کیا گیا ہے اس کو تو غیر مہذب دنیا بھی نہیں مانے گی ، اکیسویں صدی کی انسانی حقوق کی دعویدار دنیا کے ماننے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا – اس کو Blessing in disguise کہتے ہیں – کر فیو ، پابندیاں اٹھنے اور مواصلات کے بحال ہونے کے بعد اس عرصہ کے دوران قتل و غارت ، آبرو ریزی ، ظلم ستم کی داستانیں سامنے آئیں گی اور اس وقت ہندوستان کی پوری فوج بھی اس کو قابو نہیں کر سکے گی – مغل ، افغان ، سکھ اور ڈوگروں کے نا قابل بیان ظلم بھی کشمیریوں کو زیر نہیں کر سکے ، لالے لوگ تو کشمیریوں کو مہان اور بھگوان مان کے ان سے پناہ مانگیں گے –

اب ریاست میں مسئلہ اندرونی خود مختاری یا دفعہ 35 A کی بحالی کا نہیں ، بلکہ ریاست کے حتمی حل کا ہے، حق خود ارادیت کا ہے – کشمیریوں کی جدو جہد کو مزید جواز اور طاقت ملی ہے -دفعہ 35 A کی بحالی یا 370 کا دفاع ریاست کی متنازع پوزیشن کو بحال رکھنے کے لئے کیا جا رہا ہے وگرنہ کشمیری تو ہندوستانی آئین کے تحت ہندوستان کے ساتھ بات کرنے کے بھی روادار نہیں رہے ہیں – آئین کے الفاظ زمینی حقائق نہیں بدل سکتے ، حوصلے آئین ، قانون، تاریخ اور جغرا فیہ بدل دیتے ہیں –

ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی مختلف حیلوں بہانوں سے قتل و غارت کے بعد مودی حکومت کے اس عمل نے ہندوستان کی نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کو ایسی ہی آئینی گا رنٹیز کو اگر ختم کیا تو ملک کے اُس حصے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے – ناگا لینڈ میں تو اس کا با ضابطہ اعلان بھی کر دیا گیا ہے – اگر ان کے ہندو ہونے کی وجہ سے نہ کیا تو یہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہوگا کہ یہ مسلمانوں کی جان و مال ہی نہیں ان کا نام و نشان مٹانے کے لئے کیا جارہا ہے جس کو ہندوستان کے بیس کروڑ غیور مسلمان بھانپ چکے ہیں اور بعید نہیں کہ ہندوستان کے اندر ایک نیا پاکستان بنے – ہمارا پاکستان بھی ان ہی کی تحریک اور قربانیوں سے بنا ہے ، تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجئے – حالات نئی انگڑائی لے رہے ہیں ، ان کا باریک بینی سے ادراک کیے جانےکی ضرورت ہے-

[pullquote]اب کرنا کیا چاہیے۔ ۔ ۔؟[/pullquote]

1- دنیا بھر میں کشمیری تو اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جس سے دنیا کا شعور بھی بیدار ہوگا – پاکستان بھی پہلے سے زیادہ سر گرم ہے ، لیکن اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے – آج تک پاکستان نے ملی ٹینسی کے ذریعہ بہت کچھ کرنے کی کوشش کی بلکہ پاکستان کی سالمیت کو بھی داؤ پہ لگا دیا اور اس سلسلے میں ہمیشہ پہل کی – اب وہ دور ختم ہو گیا ہے ، اب ڈپلو میسی کا دور ہے، اس میں پہل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ Proactive ہی نہیں جارہا نہ ہونے کی ضرورت ہے –

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دیانت داری سے واشگاف الفاظ میں اپنی سفارتی بے بسی کا اظہار کیا کہ’’ پاکستان اکیلا ہے ، مسلمان ملک ہمارے ساتھ نہیں ، سلامتی کونسل کے ممبر ہمارے لئے ہار لے کے کھڑے نہیں ہو نگے ، کوئی ہمارے راستے میں کھڑا ہو جائے‘‘-اس پس منظر میں ہمیں کتنی محنت کی ضرورت ہے، اس کا تصور کوئی صاحب بصیرت اور صاحب نگاہ ہی کر سکتا ہے – اس کے لئے ملک کے اندر سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ، جس سے اقتصادی ترقی ممکن ہے اور ملکی خوشحالی کے بعد ہی پاکستان کا دنیا میں مقام بنے گا ، اس کی کوئی بات سنے گا ، صرف اس سے ہی ڈپلو میسی کار گر ہو سکے گی –

اس کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑے گا – حکومت کرنے والوں کو باہر والوں کے ساتھ حسن سلوک کی ضرورت ہے ، ان کی تذلیل و تحقیر کر کے قومی یکجہتی قائم نہیں ہو سکتی – کشمیر ریاست پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن ریاست کی نمائیدگی حکومت کرتی ہے جس کو اپنے سیاسی حریفوں کو ساتھ چلانا پڑے گا – احتساب سے انکار ممکن نہیں ، لیکن اس سے انتقام کا تأثر نہیں ملنا چاہیے۔کردار کشی، میڈیا ٹرائل – دنیا بھر میں سابقہ حکمرانوں کو چور ڈاکو کہہ کر پاکستان سے دنیا کا اعتماد اس بناء پہ بھی ختم ہوگا کہ سارے پاکستانی بشمول حکمران حال بھی ایسے ہو ںگے- چوروں کا فئیر ٹرائل کرکے ان کو عبرت ناک سزائیں دلائیں اور ردی کی ٹوکری کی نذر کریں -لیکن اگر ملک کی سلامتی، بقا اور مفادات داؤ پر لگے ہوں تو جمہوریت اور احتساب کو کچھ عرصہ کے لئے انتظار کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں –

حکومت کے حریفوں کو بھی حکومت کو کام کرنے کا موقع دینا پڑےگا ، اس کی ٹانگیں کھنچنا اور اس پر قوم کو بد اعتماد کرنے سے قومی یکجہتی قائم نہیں ہو سکتی-حکومت میں آنے والے نئے چہروں کو تسلیم کرنا پڑے گا ، حکومت لوگوں کی جاگیر ہے ، عمران خان، نواز شریف یا زرداری کی نہیں –

(جاری ہے۔۔۔)

دوسری قسط یہاں پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے