انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کا حکم

وفاقی حکومت نے حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چاروں صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد انتظامیہ کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے وفاقی وزارتِ داخلہ سے اس حوالے سے نوٹیفیکیشن موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے وفاقی حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ انصار الاسلام ’ایک فوجی تنظیم کی حیثیت سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ جو کہ آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی ہے۔

’یہ ایک منظم، تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس تنظیم ہے جو کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور آزادی مارچ کے مقاصد کو فروغ دینے کے لیے طاقت کا مظاہرہ یا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ تنظیم ملک کے امن اور سلامتی کے لیے حقیقی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔

یاد رہے 20 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے اقدامات اٹھانا شروع کیے تھے اور اس ضمن میں وزارتِ داخلہ نے قانونی رائے لینے کی غرض سے ایک سمری وزارتِ قانون کو بھی بھجوائی تھی۔

وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم لٹھ بردار ہے اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔

نوٹیفکیشن میں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا گیا کہ انصار الاسلام کے کارکنان کے پاس ممنوعہ اسلحہ بھی ہو سکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے تحت کسی بھی مسلح اور شدت پسند تنظیم کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے چاروں صوبائی حکومتوں کو فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے ضروری اقدامات بشمول تنظیم کو کالعدم قرار دینا اور مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

[pullquote]انصار الاسلام کب معرض وجود میں آئی؟[/pullquote]

نمائندہ بی بی سی دانش حسین سے بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ انصار الاسلام کا قیام اسی وقت عمل میں آیا تھا جب جمعیت علمائے اسلام معرض وجود میں آئی۔

’جے یو آئی (ف) کے آئین میں انصار الاسلام کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کا کام فقط انتظام و انصرام قائم رکھنا ہے۔ یہ جمعیت کے ماتحت اور اس کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انصار الاسلام کا کام جمعیت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے جلسے، جلسوں اور کانفرنسوں میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینا ہے۔ ’جلسہ بڑا ہو گا تو انصار الاسلام کے رضاکار بھی زیادہ ہوں گے اور اگر چھوٹا تو کم۔‘

انھوں نے بتایا کہ ضلعی سطح پر ہونے والے جلسوں میں 100 سے زائد رضاکار نہیں ہوتے، صوبائی سطح پر ہونے والے جلسے میں 500 سے ایک ہزار اور ملک گیر سطح پر ہونے والے جلسوں میں رضاکاروں کی تعداد دس ہزار تک ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں ہونے والی جمعیت کی تمام بڑی کانفرنسوں اور جلوسوں کی سکیورٹی اور انتظام کی ذمہ داری انصار الاسلام کی ہی تھی۔ ’رضاکاروں کے بنیادی کاموں میں سے ایک شرپسندوں پر نظر رکھنا بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمعیت کے ہزاروں اور لاکھوں کے اجتماعات ہوئے مگر آج تک کسی دکان یا مکان کا شیشہ تک نہیں ٹوٹا۔‘

انھوں نے کہا کہ وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری حکومت کی غیر ضروری گھبراہٹ کی غماز ہے اور اگر انصار الاسلام کے خلاف قدم اٹھایا گیا تو وفاقی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کا آئین الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور اس کے تحت انصار الاسلام ایک قانونی تنظیم ہے۔

[pullquote]انصار الاسلام کے ممبران کتنے ہیں؟[/pullquote]

وزارت داخلہ کی جانب سے لکھی گئی سمری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انصار الاسلام میں شامل افراد کی تعداد ملک بھر میں 80 ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس میں شامل افراد نے قانون نافد کرنے والے اداروں کا مقابلہ کرنے کے لیے پشاور میں مشقیں بھی کی ہیں۔

تاہم عبدالغفور حیدری کے مطابق انصار الاسلام کے باقاعدہ رجسٹرڈ ممبر نہیں ہوتے۔ ’مرکزی سالار، صوبائی سالار، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر سالار ہوتے ہیں جو کسی بھی تنظیمی جلسے کے حجم کو دیکھتے ہوئے جمعیت ہی کے کارکنان کو انتظام و انصرام کی ڈیوٹی دینے کا کہتے ہیں۔‘

’کوئی باقاعدہ تعداد نہیں مگر اگر صوبائی تنظیموں کو کسی جلسے کے لیے دس ہزار رضاکاروں کا بھی کہا جائے تو وہ بندوبست کر کے دیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت میں انتظام انصرام کے لیے اس نوعیت کی ذیلی تنظیمیں لازماً موجود ہوتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ جمعیت کے ذمہ داران کسی بھی رضاکار کا نام فائنل کرنے سے قبل اس کی مکمل چھان بین کرتے ہیں تاکہ کوئی شر پسند انتظامی کاموں میں شامل نہ ہو پائے۔

وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں انصار الاسلام کی طرف سے پشاور میں جاری مشقوں کی ویڈیوز کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور متعدد ممالک نے اس بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

[pullquote]رضاکار کی بھرتی کا طریقہ اور پہچان؟[/pullquote]

جمعیت علمائے اسلام کے آئین کی دفعہ نمبر 26 کے مطابق ہر مسلمان پابند صوم و صلوۃ، مستعد اور باہمت نوجوان جو جمعیت علمائے اسلام کا رکن ہو وہ انصار الاسلام کا کارکن بن سکتا ہے۔

رضاکاروں کی وردی کا رنگ خاکی ہوتا ہے جس کی قمیض پر دو جیبیں لگی ہوتی ہیں، گرم کپڑے کی خاکی ٹوپی جس پر دھاری دار بیج ہوتا ہے جبکہ پیر میں سیاہ رنگ کا بند جوتا۔

بیج پر کسی بھی رضاکار کا عہدہ اور حلقہ درج ہوتا ہے۔

اجتماعات میں فرائض سے غفلت برتنے پر سالار کسی بھی رضاکار کو معطل کر سکتا ہے۔

[pullquote]وفاقی حکومت کی سمری میں کیا تھا؟[/pullquote]

وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجی گئی سمری میں وزارتِ قانون کو مطلع کیا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام نے انصار الاسلام کے نام سے ایک شدت پسند گروپ قائم کیا ہے جس میں نجی افراد کو رضا کار کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔

اس سمری میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ جمعیت علمائے اسلام نے اس ماہ کی 27 تاریخ کو حکومت کے خلاف آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچے گا۔

اگر مولانا فضل الرحمان دھرنا دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسے میں ان کی سیاسی جماعت کی ذیلی اس تنظیم کے کارکنان بھی اس دھرنے کا حصہ ہوں گے۔

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی چند ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس فورس کے کارکنان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں جن پر لوہے کی خاردار تاریں لپیٹی ہوئی ہیں اور اس فورس کا مقصد حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے