واقعہ کربلا ، ضمیر شناسی کا نام

واقعہ کرب وبلا محض ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ خانوادہ رسالت کی دین اسلام کے لئے وہ عظیم الشان قربانی ہے جس کی یاد ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ۔کسی بھی صورتحال یا واقعہ کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسکے مقصد کو دیکھا جائے ۔

کسی واقعہ یا فرد کا مقصد جتنا عظیم ہو گا اتنا ہی وہ لوگوں کے نہ صرف ذہنوں بلکہ دلوں پر بھی قبضہ کر لے گا ۔ سو معرکہ کربلا شعور ، حریت ، خودداری ، شجاعت ، ایثار و قربانی اور صبر و انقلاب کا ایک مکمل مجموعہ ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر وہ شخص جو کہ خواہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو ، کوئی بھی عقیدہ رکھتا ہو لیکن اگر اسکا ضمیر زندہ ہے تو وہ کربلا شناس ہے ، وہ حسینی ہے ۔

کربلا شناسی یہ نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی امام حسین علیہ اسلام کے ماننے والے ہوں ہر گز نہیں ۔ امام حسین علیہ اسلام تو پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں ، وہ تو ایک ایسا مینارہ نور ہیں جن سے ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق نور ہدایت پا سکتا ہے۔

۔ امام حسین علیہ اسلام کی قربانی ایک آفاقی اور ہمہ گیر قربانی ہے کیونکہ وہ کسی ایک خاص امت ، طبقے یا گروہ کے لئے نہیں تھی بلکہ اسکا مقصد تمام عالم انسانیت کی بھلائی تھا ۔

میدان کربلا میں خواتین ہوں یا بچے ، بوڑھے ہوں یا جوان سب کا عزم و حوصلہ بلند تھا ، یہ تمام صابر ، متقی اور جری تھے اور اطاعت گذار بھی ۔ یہاں قاسم جیسے کم سن شہید بھی ہیں کہ جن سے جب ان کے چچا امام حسین نے میدان کربلا میں روانہ کرتے ہوئے پوچھا ’’ تم راہ حق میں موت کو کیسے پاتے ہو ؟‘‘ تو شہزادہ قاسم نے بلا خوف و خطر جواب دیا کہ ’’ میں موت کو شہد سے بھی زیادہ شیریں پاتا ہوں ۔‘‘

معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اسکی صدائے بازگشت آج تک قضائے عالم میں گونج رہی ہے ۔ جرمن فلاسفر نطشے کہتا ہے کہ
’’ امام حسین علیہ اسلام کی قربانی زہد و تقوی اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے ۔‘‘
انگلستان کے مشہور سکالر و ناول نگارچارلس ڈکسن کہتے ہیں کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ حسین(امام حسینؑ) کو کوئی دنیاوی لالچ تھا یا اگر ایسا ہوتا تو حسین( امام حسینؑ) اپنا سارا خاندان بچے و خواتین کیوں دشت کربلا میں لاتے؟ کربلا میں بچوں و خواتین سمیت آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حسین( امام حسینؑ) نے فقط اسلام اور رضائے الہی کے لئے قربانی دی‘‘

آج دنیا جس کشمکش کا شکار ہے جہاں انتہا پسندی ، دہشتگردی اپنے پر پھیلائے منڈلا رہی ہے وہ صرف اسی لئے ہے کہ ہم نے مقصد حسینی کو بھلا دیا ہے ، ہم کربلا کی اصل روح کو بھلا چکے ہیں ۔ کیونکہ کربلا تو ایک انقلاب کا نام ہے ، جب جب دنیا میں یزیدی قوتیں سامنے آئیں گے کربلا کا کردار ان کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گا ۔جب تک انسان کا ضمیر زندہ رہے گا وہ دوسروں کی بھلائی کے لئے سوچے گا اور منافقت اور انتہا پسندی سے باز رہنے کی سعی کرے گا ۔

کربلا کا واقعہ ہمیشہ حق شناسوں اور زندہ ضمیر رکھنے والوں کی ایک پہچان بنا رہے گا ، کیونکہ یہ عشق کی انتہا ہے جو اللہ تعالی اور اسکے رسول کی خوشنودی کے لئے مال و جان کی قربانی کی صورت میں دیا گیا شاید اسی لئے کہیں اقبال کو صدق خلیل کو بھی عشق کی ایک صورت قرار دینا پڑا تو کہیں امام حسین علیہ اسلام کے صبر کو بھی عشق الہی کی معراج کہنا پڑا اور شاید یہی وجہ تھی کہ جوش ملیح آبادی بھی اپنے اشعار میں محبت حسین علیہ اسلام کا درس دیتے ہوئے دکھائی د ئیے ۔

کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلؤوں سے مسل سکتی ہے
کربلا، خار تو کیا، آگ پہ چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا

اللہ تعالی ہمیں امام حسین علیہ اسلام کی سیرت کاملہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے آمین ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے