دیدہ ور: بالآخر ربّ نے ہماری فریاد سن لی

کئی برسوں سے ہم اپنی بے نوری پہ مسلسل رو رہے تھے۔ بالآخر 25جولائی 2018کے دن ربّ نے ہماری فریاد سن لی۔ انتخابی نتائج کی بدولت ”دیدہ ور“ پیدا ہوگیا۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے وہ پاکستان کو مدینہ ایسی ریاست بنانا چاہ رہا ہے۔اس ریاست میں ”اطاعتِ امیر“ فرض کی صورت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ عمران خان صاحب کو کامیاب بنانے کے لئے وسوسوں بھرے ذہنوں کی جانب سے ”شر“ پھیلاتے سوالات کا تدارک لہذا لازمی ہے۔ ورنہ فساد پھیلے گا اور میں مفسدوںکی صف میں کھڑا ہوکر اپنا سرکٹوانے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ عمران حکومت کے اٹھائے ہر قدم کی آنکھ بند کئے حمایت وستائش پر مجبور ہوں۔

ہفتے کی شب کچھ دیر کے لئے ٹی وی کھولا تھا۔ ایک چینل پر عالمی امور کو رومن ایمپائر سے دو عالمی جنگوں اور امریکہ اور روس کے درمیان کئی دہائیوں تک جاری رہی سرد جنگ کے تناظر میں رکھ کر دیکھنے والے ایک دانشور ہمیں سمجھا رہے تھے کہ حاکمانِ وقت نے امریکہ کو اس کی ”تھاں رکھنے“ کا طریقہ دریافت کرلیا ہے۔ ہم ان کی بات بہت شائستگی سے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔

واشنگٹن چاہتا ہے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود جو اہداف وہ افغانستان میں حاصل نہیں کرپایا ان کے حصول میں اس کی مدد کریں۔ ہم مگر بے وقوف نہیں۔ خوب سمجھتے ہیں کہ طالبان اس ملک میں قومی آزادی اور خودمختاری کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس جذبے کے ساتھ لڑنے والوں کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔ دیت نام کی مثال اس حوالے سے کئی بار یاد دلائی گئی۔

اس حقیقت پر توجہ دینے کی البتہ اس دانشورنے ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے انتخاب افغانستان کا کیا۔ یہ دورہ پاکستان میں امریکی وزیر خارجہ کی آمد کے بعد ہوا۔ اگر ہم نے اس کی تمام باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی تھیںتو ہمارے وزیر خارجہ کو پاک فضائیہ کا خصوصی طیارہ لے کر کابل جانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

طالبان ”قومی مختاری“ کی جو جنگ لڑرہے ہیں اس کے مطابق افغانستان کا صدر اشرف غنی ایک کٹھ پتلی حکمران ہے۔امریکہ نے اسے ان کے ملک پر مسلط کیا ہے۔افغانستان سے لاتعلقی دکھانے کے لئے ضروری تھا کہ ہم کٹھ پتلی صدر سے مذاکرات سے بھی گریز کرتے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ مگر اس سے مذاکرات کئے اور اپنے دورے کو کامیاب بھی قرار دے رہے ہیں۔ اشرف غنی حکومت سے ”کامیاب مذاکرات“ طالبان کی جانب سے برپا ”قومی خودمختاری“ کی جنگ کے لئے کیسے مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب مذکورہ دانشور سے کسی نے جاننے کی کوشش ہی نہ کی۔ وہ ازخود بھی اس پہلو پر روشنی ڈالنے کو مائل نہ ہوئے۔

”اطاعت امیر“مگر 25جولائی 2018سے مدینہ جیسی ریاست بنتے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میرا فرض ہوچکا ہے۔مخدوم صاحب کا دورئہ کابل یقینا بہت کامیاب رہا ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ کو بھی اسلام آباد میں 5گھنٹے گزارنے کے بعد سمجھ آگئی ہوگی کہ اس کے ہر حکم کی تعمیل کے لئے فوری عمل کرنے کو تیار آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے سیاستدان اب پاکستان میں فیصلہ سازی کے اختیار سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہماری ریاست کے تمام ادارے دیدہ ور امیر کی قیادت تلے ایک صف (جسے گزشتہ چند برسوں سے Pageکہا جاتا ہے)میں کھڑے ہوچکے ہیں۔ افغانستان کو امریکہ کا مطیع وفرماں بردار بنانے میں پاکستان اب کوئی کردار ادا کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔

امریکہ کو مگر یہ گھمنڈ ہے کہ پاکستان اپنی معاشی مجبوریوں کے باعث آئندہ چند ہفتوں میں کشکول اٹھائے IMFسے کوئی Bailoutپیکیج کی بھیک مانگ رہا ہوگا۔ ہمارے وزیر خزانہ میڈیا کی نگاہوں سے دور رہ کر مگر IMFسے گریز کے طریقے ڈھونڈرہے ہیں۔ مرزا شہزاد اکبر کو قوم کی لوٹی ہوئی دولت غیر ملکوں سے قومی خزانے میں واپس لانے کے لئے وقت درکار ہے۔ اس وقت تک ”منی بجٹ“ کے ذریعے محاصل کو بڑھانا ہوگا۔

عمران خان صاحب کشکول اٹھاکر کسی غیر ملک کا دورہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔ سعودی عرب مگر ہمارا قریب ترین برادر ملک ہے۔ ہمارا کعبہ بھی وہاں ہے۔ اس کے دروازے ہمارے وزیر اعظم کے لئے کھولے جائیں تو ربّ کریم سے فریاد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔دریں اثناءاس ملک کا سفر کرنے کی بدولت اگر لمبے ادھار پر اکتوبر نومبر میں بوئی فصلوں کے لئے تقریباََ ایک ارب روپے کی یوریا کھاد مل جائے تو دین ودنیا ایک ہوجائیں گے۔ ہماری تیل سے متعلق ضرورتوں کا آسان اقساط پر بندوبست بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد آئے گا چین۔ یہ دونوں باہم مل کر ہمیںایسا Cushionفراہم کرسکتے ہیں جو اسدعمر صاحب کو کشکول اٹھاکر IMFجانے سے بچالے گا۔ IMFسے اجتناب ہمیں امریکہ کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے میں مزید مدد فراہم کردے گا۔

ایمان والوں کو فقط صبر کی ضرورت ہے۔ میڈیا میں موجود چند ”لفافے“ یا سامراج کے غلام ہوئے اذہان قوم میں لیکن مایوسی اور بے صبری پھیلارہے ہیں۔ ”امیر“ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہورہے۔ جن اخبارات کے ذریعے وہ مفسد ان خیالات کو پھیلارہے ہیں ان کی مالی حالت مگر دن بدن دگرگوں ہورہی ہے۔ نجی کاروباری ادارے انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی نہیں۔ سرکاری اشتہارات انہیں زندہ رکھنے کے لئے آکسیجن کی طرح ضروری ہیں اور موجودہ حکومت اپنے کاموں کی تشہیر نہیں چاہتی۔

اس حکومت کا ہوا کام برسرزمین نظر آئے گا۔ وزیر اعظم دفتر سے اپنے گھر جاتے ہیں تو سڑکیں بند نہیں ہوتیں۔ 60روپے فی کلومیٹر کے خرچ سے ہیلی کاپٹر استعمال ہوجاتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے سرکاری دفاتر کے دروازے عام افراد کے لئے کھول دئیے ہیں۔ لوگ فریاد لے کر جاتے ہیں اور مسائل حل ہوجاتے ہیں۔

پٹواریوں کے تبادلے قومی اسمبلی کے اراکین کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھنے سے رک جاتے ہیں۔ سردار نصراللہ دریشک صاحب کے ذریعے بارڈر ملٹری پولیس میں بھرتی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ خیر کے ان تمام کاموں کی تشہیر ہرگز ضروری نہیں۔ بے جا تشہیر کے بغیر کئی اخبارات بند ہونے کے قریب ہیں۔ ان کے ذریعے مفسدانہ خیالات کی ترویج ممکن نہیں رہے گی۔ فسادیوں کو شاید حسن بن صباح اور اس کے فدائین کی طرح ویران پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنے قلعوں میں پناہ لینا ہوگی۔ طیارے اور میزائل مگر ایسے قلعوں کوتباہ کردیتے ہیں۔ فکر مندی کی ضرورت نہیں۔ فیس بک یا ٹویٹر کا لیکن کچھ بندوبست کرنا ہوگا۔ ویسے بھی یہ 5th Generation Warکا تقاضہ ہے۔سوشل میڈیا پر کنٹرول کا دل وجان سے منتظر ہوں تاکہ کامل یکسوئی کے ساتھ اطاعتِ امیر میں مشغول ہوسکوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے