کراچی میں بستے بے شناخت بنگالیوں‌ کا درد

عمران خان نےوزیراعظم بننے کے بعد 16 ستمبر کو اپنے پہلے دورہ کراچی میں بنگالیوں اور افغانیوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔ بنگالیوں کے بارے میں تو یہ بالکل درست فیصلہ ہے۔ کراچی میں بڑی تعداد میں برما سے کئی دہائیاں قبل ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگ مقیم ہیں۔ان برمیوں کو بھی سرکاری اصطلاح میں بنگالی ہی شمار کیا جاتا ہے۔ اب ان کے بچوں کی اولادیں بھی یہیں اپنی تیسری نسل شروع کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں‌مقیم بنگالیوں‌کی تعداد 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے.

یہ لوگ ملک سے محبت کرنے والے اور پُرامن پسند لوگ ہیں۔سَر دست ملک سے محبت کا پیمانہ یہی ہے کہ سر نیوڑا کراپنی زندگی گھسیٹو۔ یہ لوگ یہی کر رہے ہیں۔ خاموشی سے اپنی محنت مزدوری کرتے ہیں اور دن کاٹتے ہیں۔اگر کہیں‌کہیں ان کے نوجوان وائلنس کی جانب گے بھی ہیں‌تو ان کا تناسب بہت کم رہا ہے. کراچی میں قائم برما کالونیوں کی حالت زار انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ بہت چھوٹے چھوٹے غار نما گھروں میں یہ لوگ رہتے ہیں۔ جہاں گلیاں کچی اور متعفن ہیں۔ ان کی گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے گھومتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان لوگوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔

شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسلسل پولیس اور دیگر گروہوں کی بلیک میلنگ کا شکار رہتے ہیں ۔ایم کیو ایم اپنی سفاکیت کے عہد میں ان کی آبادیوں سے افرادی قوت جمع کیا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی الطاف حسین لندن سے خطاب کا ارادہ فرماتے تو بڑے بڑے ڈالے(ٹرک) برما کالونیوں میں پہنچ جایا کرتے تھے اور سیکٹر کا کارندہ آواز لگاتا تھا کہ سوار ہو جاو اِن ٹرکوں میں۔ کیا مجال کہ کوئی چُھپ جائے یا دَم مارے۔ اس غیر مشروط اطاعت کی وجہ یہی تھی کہ شناخت کے بحران کے شکار یہ لوگ سمندر میں رہتے ہوئے مگر مجھ سے بیر رکھنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔

ان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو پرائیویٹ کاروبار اور اپنی محنت سے مالی طور پرآسودہ حال ہوئے اور نسبتاً بہتر علاقوں میں رہنے لگے، انہوں نے جیسے تیسے اپنے شناختی کارڈ بھی بنوا لیے لیکن ابھی بھی بنگالیوں اور برمیوں کی اکثریت بے شناخت ہے۔ یہ لوگ فیکٹریوں میں سیٹھوں کے بدترین استحصال کا نشانہ بنتے ہیں ، سمندری جہازوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں یا پھر مچھلیاں پکڑتے اور بیچتے ہیں۔

ایک اور مسئلہ بھی اس کمیونٹی کو درپیش ہے . وہ یہ کہ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کے والدین یا رشتہ دار برما یا بنگلہ دیش میں رہ گئے ہیں‌. یہ لوگ کئی برسوں‌سے ان کے ساتھ مل نہیں‌پائے . کشمیریوں کے لیے تو جنرل مشرف نے 2005 میں ایک بس سروس چلا دی تھی لیکن بنگالیوں کو ایسی کوئی سہولت نہ مل سکی . ان منقسم خاندانوں کے افراد کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ قانونی راہ سے اپنے پیاروں کو مل نہیں سکتے . اپنوں سے جدائی کا یہ درد اور کرب مسلسل بڑھ رہا ہے.

اسی طرح کے مسائل کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں مسیحی برادری کے لوگوں کے ساتھ بھی ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سے مسیحی افراد کا تعلق اقلیتی عیسائی فرقے سے ہے۔ ان کی شناخت سے متعلق دستاویزات کا کوئی خاص مرتب نظام نہیں ہے۔ جب یہ لوگ کراچی جیسے شہر میں جاتے ہیں تو ان کے شناختی کارڈ نہیں بن پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فیکڑی مالکان ان کے بے شناخت ہونے کا فائدہ یوں اٹھاتے ہیں کہ انہیں مزدوری کی شرمناک حد تک کم اُجرت دیتے ہیں ۔ یہ کسی بھی پرائیویٹ ادارے میں مستقل نہیں ہوسکتے۔

کچھ اعتراضات کراچی پر حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں پر بھی ہیں ۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی پر یہ بہت بڑا الزام ہے کہ انہوں نے لیاری میں بڑی تعداد مٰیں ایرانی بلوچوں کو شناختی بنوا کر دیے۔ مقصد صرف ووٹ بینک کو بڑھانا تھا،اسی ملتا جلتا اعتراض کوئٹہ میں محمد خان اچکزئی پر افغان باشندوں کے تعلق سے کیا جاتا رہا ہے۔

کراچی میں بعض علاقوں میں پشتونوں کو بھی یہ شکایت تھی کہ انہیں شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان مشکلات میں اضافہ فاٹا اور وزیرستان میں پے در پے ہونے والے آپریشنوں کے بعد ہوا ۔ ریکارڈ نہ ہونے کہ وجہ سے کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں میں سیکڑوں لوگ گمنامی کی موت مار دیے گئے۔ پشتونوں کے شناختی کارڈز کے معاملے میں لاہور سے بھی شکایات ملتی رہی ہیں۔میرا ایک کلاس فیلو دوست جس کا گھر اور کاروبار لاہور ہی میں ہے ۔ اس سے مطالبہ کیا گیا کہ شناختی بنانے کے لیے لازم ہے کہ تم اپنے دادا کو گاوں (پختون خوا) سے ساتھ لاو اور ہمارے سامنے پیش کرو۔ پروفائلنگ اور کس بلا کا نام ہے؟

جہاں تک معاملہ افغان مہاجرین کو شہریت دینے کا ہے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانوں کی بھی یہاں دوسری نسل پروان چڑھ رہی ہے ۔ افغانوں نے پاکستان میں رہ کر کاروبار میں کافی ترقی کی ۔ کئی شہروں میں تو ان کی الگ ”افغان یا خان مارکیٹیں” بھی قائم ہیں۔ ان کے بہت سے لوگ تاجروں کی سیاست میں سرگرم ہیں ۔ بہت سوں نے پاکستانی شناختی کارڈ بھی بنا لیے ہیں ۔ کہیں کہیں مقامی لوگوں سے رشتہ داریاں بھی ہوئی ہیں ۔ تاہم ان کے پاس افغانستان کی آپشن کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ، کچھ اور اندیشے بھی اس حوالے سے موجود ہیں جن کی جڑیں ”افغان جہاد” کی حکومتی پالیسی میں پیوست ہیں۔ سو ان کے معاملے میں کوئی مخصوص اور محدود میکنزم بنایا جانا چاہیے۔

کراچی میں بسنے والے بنگالیوں ، دیہی پنجاب اور سندھ سے کراچی جانے والے مسیحیوں اور دیگر لوگوں کو شہریت اور شناخت ملنی چاہیے۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں موجود ان افراد کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا تو محرومیاں بالآخر ایک لاوے کی صورت پھٹیں گی،جو ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے