تحریک شیعہ : ایک غیر جانبدارانہ مطالعہ

اس تحریر کا مقصد اہل تشیع کے فکرکو دلائل فراہم کرنا ہے نہ ان پر تنقید کرنا ۔ یہ محض اس لیے لکھی گئی ہے قارئین کے سامنے ان کی بات ،جیسی کہ وہ ہے ، بغیر کسی تعصب و تبصرے کے آجائے ۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ جب تک آپ کسی فکر یاعقیدے کو اس کے نقطہ نظر سے نہیں جان لیتے اس کے حسن وقبح ، اس کے میرٹ ڈی میرٹ کو انصاف سے پرکھ نہیں

سکتے ۔ مکرر عرض ہے کہ یہاں اہل تشیع کے نقطہ نظر کو درست یا غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ محض اس کو جاننا ہے ۔
اہل تشیع کے نزدیک دین اسلام کے بنیادی عقاید یہ ہیں :

1۔ توحید ، 2۔عدل، 3۔رسالت، 4۔امامت ، 5۔معاد

اس میں توحید ورسالت اور معاد تو وہی ہیں جو اہل سنت کے ہاں ہے ۔ رسالت کی اہم شرط ختم نبوت کو بھی وہ اسی طرح مانتے ہیں جس طرح اہل سنت ۔یاد رہے معاد سے مراد آخرت ہے۔ ان تین عقائد کی حد تک کوئی بنیادی اختلاف نہیں البتہ ان کی توضیحات وتفصیلات میں اختلاف ہو سکتے ہیں ۔لیکن اس نوعیت کے اختلافات اہل سنت کے مختلف فرقوں میں بھی ہیں اور اہل تشیع کے فرقوں میں بھی۔

عدل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا عدل پر قائم کی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ قیامت تک اسے عدل پر قائم رکھے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اہل ایمان کا حکمران عادل نہ ہو ۔ اسی لیے رسول اپنے بعد امام عادل کا تقرر کرکے جاتا ہے اور اس کے بعد وہ امام اگلے امام کا تقرر کرتا ہے ۔ اسے امامت کہا جاتا ہے ۔ (اہل سنت کے نزدیک کاینات بے شک عدل پر بنائی گئی ہے لیکن یہ دنیا جس میں ہم انسان بستے ہیں یہ آزمائش کے اصول پر ہے اس لیے یہاں ظلم بھی ہے ، عدل بھی اور اس کا مکسچر بھی۔)

امامت کا تصور یہ ہے کہ رسول اپنے بعد اپنے نائب کو مقرر کر کے جاتے ہیں ۔ اور یہ نائب صرف حضور ﷺ ہی نے نہیں مقرر نہیں کیا بلکہ تمام رسولوں نے بھی ایسا کیا۔ اس سلسلے میں حضرت موسیٰ ؑ وعیسٰی ؑ کی مثال دی جاتی ہے ۔ ان کے نزدیک جس طرح رسول کا انتخاب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اسی طرح اللہ کے حکم سے رسول اپنے جانشین یا نائب کا فیصلہ فرماتا ہے ۔ (یاد رہے کہ خلیفہ کا مطلب بھی نائب اور جانشین ہی کا ہوتا ہے ۔ )اور جس طرح رسول معصوم عن الخطاء ہوتا ہے ، اسی طرح یہ خلیفہ جسے اہل تشیع ’امام‘ کہتے ہیں وہ بھی معصوم ہوتا ہے ۔

وہ نہ صرف فرمانروا ہوتا ہے بلکہ قرآن و حدیث کی جو تشریح کر دے، جو اجتہاد فرمائے، وہ بھی حتمی ہوتاہے اور اس پر عمل کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح رسول کی بات پر عمل کرنا۔البتہ وہ صریح نص(قرآن حدیث ) کے خلاف حکم نہیں دے سکتا ۔پھر یہ امام اپنے بعد کے امام کو بھی نامزد کرتا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو امامت کے منصب پر فائز کیا ،( ان کے نزدیک کیونکہ ابوبکر و عمر و عثمان رضوان اللہ اجمعین سمیت اکثر صحابہ نے اس وصیت کو نہیں مانا اس لیے وہ ان تمام صحابہؓ کو درست نہیں سمجھتے اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رائے رکھتے ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک ایسا بالکل بھی نہیں ، وہ اہل تشیع کی طرف سے بیان کی جانے والی مشہور حدیث ’غدیر خم ‘ کو اگر چہ بہت سے اہل سنت مانتے ہیں لیکن اس کے فہم اور معنی کے تعین میں شدید اختلاف رکھتے ہیں ۔اہل سنت امامت کے اس تصور کو ختم نبوت کے خلاف مانتے ہیں۔

ان کے نزدیک اب ہدایت کا ذریعہ قرآن اور سنت ہیں جو کہ محفوظ ہیں اس لیے کسی شخصیت کے حق میں وصیت تحصیل حاصل ہے یعنی غیر ضروری ہے )اہل تشیع کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو امام مقرر کرنے کی نصیحت کی اور پھرحضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کو ، انھوں نے حضرت حسینؓ کو ، انھوں نے زین العابدین کو، انھوں نے محمد بن علی الباقر کو ، پھرحضرت جعفر صادق کو امامت پر فائز کیا ۔انھوں نے اگلے امام کی وصیت نہیں کی ۔ پوچھنے پرانھوں نے ابو مسلم خراسانی کو یہ فرمایا کہ نہ تم ا س قابل ہو کہ تمھیں بتا یا جائے اور نہ زمانہ ان کی آمد کے قابل ہے۔البتہ اثنا عشری فرقے کے مطابق اس کے بعدموسیٰ کاظم، پھر علی الرضا ، پھر محمد النقی، پھر علی الہادی ، پھر الحسن الذکی العسکری اورپھرمحمد المہدی امام مقرر ہوئے۔

مگر وہ ابھی چند ماہ یا چند برس کے تھے کہ حالات کی وجہ سے انھیں روپوش ہونا پڑا اور وہ سامرّہ کے غار میں چلے گئے ۔( 15 شعبان 255 ھ)وہاں وہ اس وقت تک غائب رہیں گے جب تک حالات سازگار نہیں ہوتے ۔ انھی کوامام غائب یا مہدی کہتے ہیں، جن کا انتظار کیا جاتا ہے ۔وہ مناسب وقت پر غار سے باہر تشریف لائیں گے اور آکر اہل بیت سے ہونے والی تمام زیادتیوں کا ازالہ کریں گے اور دنیا کو قیامت تک کے لیے عدل پر قائم کر دیں گے ۔

(اہل سنت کی اکثریت کے ہاں ’امام مہدی‘ کا جو تصور ہے وہ اس سے مختلف ہے، اہل سنت میں جو اس کو نہیں مانتے ، وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ اہل تشیع ہی سے لیا گیا عقیدہ ہے کیونکہ یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، اس حدیث کی روایت صرف اور صرف اہل تشیع راویوں ہی سے ملتی ہے )اہل تشیع کے ہاں جو ان تمام بارہ ائمہ کو مانتے ہیں انھیں ’’اثنا عشری ‘‘ کہتے ہیں ۔ اور انھی کی اہل تشیع میں اکثریت ہے ۔ ان کے بعض فرقے جعفر صادق کے بعدآنے والے ائمہ کے تعین میں اختلاف کرتے ہیں اور اسی سے اہل تشیع کے مختلف فرقے وجود میں آئے ۔ جبکہ’ زیدیہ‘ صرف امام زین العابدین تک کے قائل ہیں۔ ( ان کی تفصیل نیچے نقشے میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ )

عقائد کے بعد ارکان اسلام کی طرف آتے ہیں ۔ ان کے ہاں یہ بھی اہل سنت کی طرح پانچ ہی ہیں لیکن ان میں اختلاف ہے ۔ ان کے نزدیک یہ پانچ ارکان یہ ہیں : نماز ، روزہ ، زکوٰۃ،خمس اور جہاد ۔

نمازیں پانچ ہیں ۔اور ان کی تعداد بھی وہی ہے جو اہل سنت کے ہاں ہے ۔ البتہ وضو اور نماز کی ادائیگی میں بعض اہم اختلافات ہیں ۔ یہی معاملہ روزے اور حج کا ہے ۔ ان میں اختلافات ہونے باوجود اہل سنت اور اہل تشیع انھیں ایک ہی جگہ پر ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ البتہ زکوٰۃ میں بعض بنیادی اختلافات ہیں ۔وہ زکوٰۃ کو صرف نو چیزوں میں دیناواجب سمجھتے ہیں ۔ خمس سے مراد ہے آمدنی کا پانچواں حصہ ۔ یہ ہر’ مومن‘ پرامام کو دینا فرض ہے ۔اس لیے ائمہ یعنی خالص ا ہل بیت کا زکوٰۃ کے بجائے خمس میں حصہ مانا جاتا ہے ۔ جہاد کو وہ اہل سنت کے برعکس ایک مستقل رکن اسلام مانتے ہیں البتہ ان کے نزدیک پرائیویٹ جہاد یا غیر مقاتلین اور غیر مسلح افراد سے لڑنا ناجائز سمجھتے ہیں ۔ (البتہ ان کا امام اس شرط کو کبھی بھی ختم کر سکتا ہے۔ )

ان کے ہاں ماخذ دین یہ ہیں: قرآن ، حدیث ، عقل اور اجماع۔ حدیث ان کے نزد یک صرف اہل بیت اور خلافت علیؓ کے قائل صحابہ ہی کی معتبر سمجھی جاتی ہے ۔ ائمہ کی حدیث کو بھی وہ رسول کی حدیث کا درجہ دیتے ہیں ۔

عاشورہ پر کیے جانے والے اعمال اور جلوسوں کو و ہ تولیٰ اور تبریٰ کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ یہ نصرت دین اورجہاد کا حصہ ہیں ۔ یعنی آکھے لوگوں کی تعریف اور برے لوگوں کی ہجو اورمذمت ۔ ان کے نزدیک امام غائب کی آمد تک اس سلسلہ کو جاری رہنا چاہیے ۔ اسی کی یاد دہانی کے لیے عاشورہ محرم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک اجتہادی عمل ہے لیکن عملی طور پر اسے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ عقیدہ عدل ، امامت اور جہاد کا لازمی تقاضا ہے ۔ ان کے ہاں اس کی وہی حیثیت ہے جو حج کی ہے ۔

حج جس طرح ایک علامتی عبادت ہے، یعنی اہل اسلام جس طرح حج کے لباس(احرام ) کوموت ، طواف و تلبیہ کو اللہ کے ساتھ تعلق، قیام عرفات ا ورمزدلفہ وغیرہ کو آخرت اور شیطان کو کنکریاں مارنے کو جہاد کی علامت سمجھتے ہیں، اہل تشیع اسی طرح ماتم وتعزیہ وغیرہ کو اس بات کا علامتی اظہار اور عزم وارادہ کی پختگی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں کہ اہل بیت کی جدوجہد کو یاد رکھنا ہے، اس دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور امام غائب کی آمد تک شیعہ تحریک کو پوری قوت کے ساتھ جاری وساری رکھنا ہے ۔ البتہ ان جلوسوں میں ہونے والے اعمال اور طریقہ کار میں افراط وتفریط کو ان کے سنجیدہ طبقے بھی قابل اصلاح سمجھتے ہیں ۔

یہ ہے انتہائی اختصار کے ساتھ اہل تشیع کے بنیادی عقائد و عبادات کا تعارف ۔ آخر میں عرض ہے کہ اگر اس مضمون میں کوئی چیز حقائق سے برعکس نظر آئے یا اس میں تعصب ہو تو آگاہ کیا جائے ، تصحیح کر دی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے